Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 19
اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌ١ۚ یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ١ؕ وَ اللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ
أَوْ کَصَيِّبٍ : یا جیسے بارش ہو مِنَ السَّمَاءِ : آسمان سے فِيهِ : اس میں ظُلُمَاتٌ : اندھیرے ہوں وَرَعْدٌ : اور گرج وَبَرْقٌ : اور بجلی يَجْعَلُونَ : وہ ٹھونس لیتے ہیں أَصَابِعَهُمْ : اپنی انگلیاں فِي آذَانِهِمْ : اپنے کانوں میں مِنَ الصَّوَاعِقِ : کڑک کے سبب حَذَرَ الْمَوْتِ : موت کے ڈر سے وَاللَّهُ : اور اللہ مُحِيطٌ : گھیرے ہوئے ہے بِالْکَافِرِينَ : کافروں کو
یا ان کی مثال مینہ کی سی ہے کہ آسمان سے (برس رہا ہو اور) اس میں اندھیرے پر اندھیرا (چھا رہا ہو) اور (بادل) گرج (رہا) ہو اور بجلی (کوند رہی) ہو تو یہ کڑک سے (ڈر کر) موت کے خوف سے کانوں میں انگلیاں دے لیں اور خدا کافروں کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے
دوسری تمثیل : اَوْکَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآئِ فِیْہِ ظُلُمٰتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ : (یا جیسے بادل آسمان میں اس میں اندھیرے اور گرج اور بجلی ہے) ان کے متعلق بات کو اور زیادہ واضح کرنے کے لیے ایک دوسری تمثیل ذکر کی پہلی تمثیل میں منافقین کو آگ جلانے والے سے اور اظہار ایمان کو آگ روشن کرنے سے اور اس سے فائدہ کے منقطع ہونے کو آگ کے بجھنے سے تشبیہ دی۔ اور اس تمثیل دین کو بادل سے تشبیہ دی۔ کیونکہ دل دین سے اسی طرح زندہ ہوتے ہیں جیسے بارش سے زمین۔ اور کفار کو دین کے سلسلہ میں شبہات کو ظلمات سے تشبیہ دی۔ اور قرآن میں جو وعدے اور وعیدیں ہیں۔ ان کو رعد وبرق سے تشبیہ دی اور منافقین کو گھبراہٹیں اور مصائب اہل اسلام کی طرف سے پہنچتے ہیں ان کو صواعق (گرج) سے تشبیہ دی پس معنی اس طرح ہوگا۔ یا ان کی مثال بادل والے جیسی ہے۔ مثل کا لفظ حذف کردیا۔ کیونکہ عطف کی دلالت اس کے لیے موجود ہے اور ذوی کا لفظ حذف کیا کیونکہ یجعلون اس پر دلالت کرتا ہے۔ مراد : یہ کہ ان کی مثال اس قوم جیسی ہے جن کو اس طرح کی بارش نے گھیر لیا ہو۔ پھر ان کو اس بارش سے وہ پہنچا ہو جو ان کو پہنچا۔ یہ تشبیہ اشیاء کی اشیاء کے ساتھ ہے البتہ صراحت کے ساتھ مشبہات کا ذکر نہیں کیا۔ جیسا کہ سورة غافر آیت نمبر 58 وَمَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَالْبَصِیْرُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَلاَ الْمُسِیْئُ میں ہے۔ اور امرء القیس کے اس قول میں بھی اسی طرح ہے۔ کَاَنَّ قُلوب الطیر رطبا ویابسا لدی وکرھا العُنَّابُ والحشف البالی (ردّی کھجور) (گویا پرندوں کے دل گھونسلوں کے قریب اس طرح رطب ویابس ہیں جیسے عناب اور ردی کھجور) بلکہ آیت میں استعارہ کے انداز میں تذکرہ کو سمیٹ دیا۔ تشبیہ مرکب : قول فیصل : صحیح بات یہ ہے کہ دونوں تمثیلیں ان تمثیلات میں سے ہیں۔ جو مرکب ہوتی ہیں، مفرق نہیں ہوتیں۔ کیونکہ اس میں ایک ایک چیز کو دوسری ایک ایک چیز کے ساتھ مشابہت کی مقدار سے تشبیہ دینی پڑتی ہے وضاحت اس کی اس طرح ہے کہ اہل عرب چیزوں کو ایک ایک کر کے لیتے ہیں جبکہ وہ الگ الگ ہوں۔ اور اس سے جوڑ نہ رکھتی ہوں۔ ان اشیاء کی تشبیہات ان کے نظائر سے ہوتی ہے جیسا کہ امرئو القیس نے کہا۔ کہ کیفیت حاصلہ کو ان اشیاء کے مجموعہ سے تشبیہ دی۔ جو آپس میں اس طرح ملی جلی اور منسلک ہیں۔ کہ دوسری سے مل کر وہ ایک چیز بنتی نظر آتی ہے۔ جیسا کہ سورة الجمعہ کی آیت نمبر 5 مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرَاۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْہَا میں تو رات کے ہوتے ہوئے۔ یہودیوں کی جہالت والی حالت کو جو کہ حکمت کی کتابیں۔ اٹھانے والے گدھے کی جہالت والی حالت سے تشبیہ دی۔ کیونکہ اس کے لیے کتابیں اٹھانا یا دیگر بھاری بوجھ میں دونوں برابر ہیں۔ اور اس کو اس کا کچھ شعور نہیں۔ سوائے اس تھکاوٹ اور مشقت کے جو ان دونوں بوجھوں کے نیچے اسے حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ سورة کہف آیت نمبر 45 وَاضْرِبْ لَھُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآئٍ اَنْزَلْنَاہُ مِنَ السَّمَآئِ مراد دنیا کی رونق کا زیادہ دیر باقی نہ رہنا۔ سبزی کے زیادہ باقی نہ رہنے کی طرح ہے۔ پس یہ کیفیت کو کیفیت کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ خواہ اس سے مراد افراد کی افراد کے ساتھ تشبیہ ہو جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نہ ہوں۔ (ایک چیز بننے والی نہ ہو) اسی طرح جب منافقین کا گمراہی میں پڑنا بیان کیا۔ اور ان کی حیرت و دہشت جس میں وہ ٹامک ٹوئیاں مارنے والے تھے۔ اس کو بیان کیا۔ تو ان کی حیرت اور معاملے کی شدت کو اس شخص کی تکلیف سے تشبیہ دی جو رات کے اندھیرے میں اپنی آگ کے بجھ جانے سے تکلیف اٹھا رہا ہو۔ اسی طرح کہ وہ آدمی کہ جس کو بارش گھیر لے جس میں رعدوبرق اور کڑک کا خوف بھی ہو۔ دوسری تمثیل پہلی کے مقابلے میں زیادہ بلیغ ہے۔ کیونکہ سخت حیرت اور معاملے کی شدت پر یہ زیادہ دلالت کرنے والی ہے۔ اسی وجہ سے اس کو بعد میں لائے۔ او لاؔ نے کی حکمت : اہل عرب کی عادت تھی کہ آسان سے مشکل کی طرف درجہ بدرجہ چلتے۔ دونوں تمثیلوں کو ” اَوْ “ سے عطف کیا یہ اصل کے لحاظ سے دو یا زیادہ چیزیں جن میں شک ہو۔ برا بری ثابت کرنے کے لیے آتا ہے پھر یہ صرف برابری کے لیے استعارۃً استعمال کیا جانے لگا۔ جیسا کہتے ہیں۔ جالس الحسن اوابن سیرین۔ مراد یہ ہے کہ ان دونوں کے پاس بیٹھنا برابر ہے اور ارشاد الٰہی آیت 24 سورة الانسان (وَلَا تُطِعْ مِنْھُمْ ٰاثِمًا اَوْ کَفُوْرًا۔ ناشکری اور گناہ دونوں نافرمانی کے لازم ہونے میں برابر ہیں۔ اسی طرح یہاں مطلب یہ ہے کہ منافقین کے واقعہ کی کیفیت ان دو قصوں کی کیفیت کے مشابہ ہے دونوں قصے صورت تمثیل کے مستقل ہونے میں برابر ہیں۔ تم جس سے بھی تمثیل پیش کرو درست ہے اور اگر تم دونوں سے اکٹھی مثال بیان کرو۔ تب بھی تم درست روی اختیار کرنے والے ہو۔ الصیب : اترنے والی بارش۔ پڑنے والی بارش۔ بادل کو بھی صیب کہا جاتا ہے۔ صیب کو تنکیر کے ساتھ ذکر کیا کیونکہ یہ بارش کی ایک قسم ہے جو سخت موسلا دھار ہوتی ہے جیسا کہ تمثیل اول میں نار کا لفظ نکرہ ہے۔ السمآئ : (سائبان) نمبر 1: حضرت حسن کہتے ہیں کہ یہ رکی ہوئی موج ہے سماء کے تذکرہ کا فائدہ یہ ہے کہ بادل آسمان میں ہی ہوتا ہے السمآء معرفہ لائے اس نے یہ فائدہ دیا کہ وہ بادل ہے جس نے آسمان کے اطراف کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور سماء کے حصہ ہونے کی نفی کردی۔ یعنی یہ کہ اس کے اطراف میں سے ایک افق کو اس لیے آسمان کے ہر افق کو آسمان ہی کہتے ہیں۔ پس معرفہ لانے سے مبالغہ مقصود ہے جیسا کہ صیب کو نکرہ لانے اور اس کی ترکیب وبناء میں (مبالغہ مقصود ہے) اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ بادل آسمان سے اترتا اور اسی سے اپنا پانی لیتا ہے۔ نمبر 2: اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ سمندر سے پانی لے کر اوپر چڑھتا ہے۔ نحو : ظلمات مرفوع ہے جار مجرور کے ساتھ کیونکہ وہ صیب کی صفت بن کر قوی ہوگیا۔ بخلاف اس صورت کے کہ اگر تم کہو فیہ ٖظلمٰت مبتدا ہے تو اس میں اخفش وسیبویہ کا اختلاف ہے۔ رعد و برق کی حقیقت : الرعد : بادلوں سے سنی جانے والی آواز جو بادلوں کے آپس میں رگڑنے سے پیدا ہوتی ہے۔ یا رعد فرشتہ ہے جو بادلوں کو ہانکتا ہے۔ البرق : بادلوں سے پیدا ہونے والی چمک۔ یہ برق الشئی بریقا۔ جب وہ چمکے اس سے بنا ہے۔ اور اس کی ضمیر صیب کی طرف لوٹنے والی ہے۔ صیب کو ظلمات کا مکان قرار دیا گیا۔ اگر اس سے مراد بادل لیا جائے تو اس کے اندھیرے سے مراد اس کا تہ بہ تہ اور سیاہ ہوجانا ہے۔ ظلمات گویا بادل کی سیاہی اور ایسا تہ بہ تہ ہونا جس کے ساتھ رات کا اندھیرا مل جائے۔ البتہ بارش کے اندھیروں سے مراد پے در پے قطرات سے اس کے کثیف ہونے کا اندھیرا اور بارش کے بادلوں کا سایہ جس میں رات کا اندھیرا مل جائے۔ مراد ہے۔ رعد وبرق کی جگہ الصیب کا لفظ لا کر اس کی مراد سحاب ظاہر کردی۔ اسی طرح اگر مطرمراد ہو تو تب بھی کیونکہ وہ دونوں فی الجملہ آپس میں ملے جلے ہیں۔ رعد وبرق : کو جمع نہیں لائے۔ کیونکہ وہ دونوں اصل میں مصدر ہیں۔ کہا جاتا ہے۔ رعدت السماء رعدا وبرقت برقًا۔ آسمان گرجا اور چمکا۔ پس اصل کی رعایت کرتے ہوئے دونوں کی جمع چھوڑ دی گئی۔ ان کو نکرہ لاکر اس کی انواع و اقسام کی طرف اشارہ کردیا۔ گویا کہ فیہ ظلمت داجیہ۔ گویا اس میں چھاجانے والے اندھیرے ہیں۔ اور رعدقاصف ہلاک کن گرج اور اچک لینے والی بجلی ہے۔ یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَھُمْ فِیْٓ ٰاذَانِھِمْ : (وہ اپنی انگلیاں کانوں میں رکھتے ہیں) نحو : اس میں ضمیر بادل والوں کی طرف لوٹ رہی ہے اگرچہ وہ محذوف ہے جیسا کہ سورت اعراف آیت : 4۔ اوھم قائلون میں ہے کیونکہ محذوف کا معنی باقی ہے خواہ وہ لفظوں میں ساقط ہوچکا ہو یجعلون جملہ مستانفہ ہے اس لیے اس کا کوئی محل اعراب نہیں۔ اس لئے دلیل یہ ہے کہ جب رعد برق کا ذکر ہوا جو شدت ھول ناکی کا اعلان کر رہے تھے۔ تو کہنے والا گویا کہہ رہا تھا کہ ایسی گرج میں ان کا کیا حال ہوگا ؟ تو جواب دیا۔ یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَھُمْ فِیْٓ اٰذَانِھِمْ ۔ پھر کہا اس بجلی میں انکی حالت کیا ہوگی۔ تو فرمایا یَکَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَھُمْسورۃ البقرہ آیت نمبر 20۔
Top