Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 20
یَكَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْ١ؕ كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِیْهِ١ۙۗ وَ اِذَاۤ اَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوْا١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠   ۧ
يَكَادُ : قریب ہے الْبَرْقُ : بجلی يَخْطَفُ : اچک لے اَبْصَارَھُمْ : انکی نگاہیں كُلَّمَآ : جب بھی اَضَآءَ : ّّوہ چمکی لَھُمْ : ان پر مَّشَوْا : چل پڑے فِيْهِ : اس میں وَاِذَآ : اور جب اَظْلَمَ : اندھیرا ہوا عَلَيْهِمْ : ان پر قَامُوْا : وہ کھڑے ہوئے وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا اللّٰهُ : اللہ لَذَھَبَ : چھین لیتا بِسَمْعِهِمْ : ان کی شنوا ئی وَاَبْصَارِهِمْ : اور ان کی آنکھیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَىْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
قریب ہے کہ بجلی (کی چمک) ان کی آنکھوں (کی بصارت) کو اچک لے جائے، جب بجلی (چمکتی اور) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں اور جب اندھیرا ہوجاتا ہے تو کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں اور اگر خدا چاہتا تو ان کے کانوں (کی شنوائی) اور آنکھوں (کی بینائی دونوں) کو زائل کردیتا، بلاشبہ خدا ہر چیز پر قادر ہے
سوال : اصابعھم فرمایا انامل نہیں فرمایا۔ حالانکہ یہ پورے ہی کانوں میں رکھے جاتے ہیں۔ جواب : مبالغہ کے لیے بطور وسعت فرما دیا۔ جیسا کہ سورة مائدہ آیت نمبر 38 فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَھُمَا۔ میں یَدْ بولا گیا اگرچہ مراد پنجہ ہے گٹے تک۔ اصابع فرمانے میں جو مبالغہ ہے وہ انامل کہنے میں نہیں اور دو انگلیوں کا بھی ذکر نہیں کیا۔ جن سے عمومًا کان بند کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ السبابہ یہ السبّ سے فعّالۃ کا وزن ہے (جس کا معنی گالی والی) تو آداب قرآن کا تقاضا یہ ہے کہ اس سے بچا جائے۔ اور مسبّحہ نہیں فرمایا کیونکہ یہ نو ایجاد غیر مشہور لفظ ہے۔ مِّنَ الصَّوَاعِقِ : (کڑک کے سبب) یہ یجعلون کے متعلق ہے یعنی صواعق کی وجہ سے وہ اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں رکھتے ہیں۔ صاعقہ آسمانی : الصاعقہ : گرج کا وہ حصہ جس کے ساتھ آگ کا ٹکڑا بھی ہو۔ علماء نے کہا کہ یہ بادلوں سے ٹوٹتا ہے۔ جب بادلوں کے اجسام آپس میں ٹکراتے ہیں۔ وہ لطیف تیز آگ ہے۔ جس چیز پر اس کا گزر ہو اس کا خاتمہ کردیتی ہے۔ مگر تیزی کے باوجود بہت جلدوہ بجھنے والی ہے حکایت ہے کہ وہ کھجور پر گری تو کھجور کا آدھا حصہ جل گیا۔ پھر وہ بجھ گئی۔ اور محاورہ میں کہا جاتا ہے صعقتہ الصاعقۃ۔ جب وہ اس کو ہلاک کر دے۔ جس سے وہ مرجائے۔ خواہ شدت آواز کی وجہ سے یا جلنے کی وجہ سے۔ حَذَرَالْمَوْتِ : (موت کے ڈر سے) نحو : یہ مفعول لہٗ ہے۔ موت : تعمیر انسانی کا بگڑنا یا ایک ایسی عارض جس سے زندگی کے پیچھے پھر آنے والا کوئی احساس درست نہ رہے۔ وَاللّٰہُ مُحِیْطٌ0 بِالْکٰفِرِیْنَ : (اور اللہ کافروں کا احاطہ کرنے والے ہیں) یعنی وہ اس کے قبضہ سے نکل نہیں سکتے جس طرح احاطہ میں آیا ہوا محیط بہٖ سے نکل نہیں سکتا۔ یہ مجاز ہے اور یہ جملہ معترضہ ہے اس کا کوئی محل اعراب نہیں۔ یَکَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَ بْصَارَھُمْ : (قریب ہے بجلی اچک لے ان کی آنکھوں کو) الخطف : اُچکنا۔ جلدی سے کسی چیز کو لے لینا۔ نحو : کَادَکا لفظ فعل کے بہت قریب کرنے کے لیے آتا ہے۔ یخطف موضع نصب میں ہے کیونکہ کاد کی خبر ہے۔ کُلَّمَآ اَضَآئَ لَھُمْ : (جب بھی روشنی ہوتی ان کے لیے) نحو : کُلَّیہ ظرف ہے مانکرہ موصوفہ ہے اس کا معنی وقت ہے اور ضمیر محذوف ہے یعنی جس وقت بھی ان کے لیے روشنی ہوتی ہے اس میں عامل اس کا جواب ہے اور وہ مَشَوْافِیْہِ ہے فیہ یعنی فی ضوءہ اس کی روشنی میں یہ تیسرا جملہ مستانفہ ہے گویا یہ اس شخص کا جواب ہے جو کہے وہ بجلی کی چمک اور بجھنے کے دوران کیا کرتے ہیں ؟ اور یہ منافقین کے معاملے کی شدت کی تمثیل بیان کی۔ بادل والوں کی شدت کو ذکر کر کے اور اس تنہائی حیرانی اور نادانی کو ذکر کر کے جو کچھ وہ کرتے اور چھوڑتے ہیں۔ جبکہ ان کا سامنا بجلی کی چمک سے ہوتا ہے۔ اس حالت میں کہ ان کو اپنی آنکھوں کے اچک لئے جانے کا خدشہ ہو۔ تو وہ اس چمک کو فرصت شمار کرتے ہیں۔ پس چند قدم چلتے ہیں۔ جب وہ چمک چھپ جاتی ہے اور دھیمی پڑجاتی ہے تو کھڑے رہ جاتے ہیں۔ اضاء : اضاء کا لفظ متعدی ہے جب بھی راستہ اور چلنے کی جگہ روشن ہوتی ہے تو وہ اس پر چلتے ہیں اور مفعول محذوف ہے یا غیر متعدی ہے جب بھی بجلی ان کے لیے چمکتی ہے تو اس کے ڈالے ہوئے نور میں چلتے ہیں المشی۔ خاص حرکت کی ایک جنس ہے اگر وہ حرکت تیز ہوجائے تو سعی اور بڑھ جائے یعنی تیزی سے دوڑنا کہلاتا ہے۔ وَاِذَآ اَظْلَمَ عَلَیْھِمْ : (جب اس پر اندھیرا چھا جاتا ہے) اظلم غیر متعدی ہے کلما اور اذا کا فرق : سوال : اضاء کے ساتھ تو کلمالائے اور اظلم کے ساتھ اذا لایا گیا ؟ جواب : جس چیز سے ان کا مقصد منسلک ہے یعنی امکان مشی۔ اس کے لیے وہ انتہائی حریص ہیں۔ جب بھی فرصت پاتے ہیں۔ تو چند قدم اٹھالیتے ہیں۔ مگر کھڑا ہونا ایسا نہیں (کہ اس کے خواہش مند ہوں۔ بلکہ وہ تو مجبوری کا کھڑا ہونا ہے۔ پس لفظ اذالائے) قَامُوْا : (وہ کھڑے ہوجاتے ہیں) قاموا۔ کھڑے اور اپنے مقام میں رک جاتے ہیں۔ اسی سے قام الماء کہتے ہیں جبکہ وہ پانی جم جائے۔ وَلَوْشَائَ اللّٰہُ لَذَھَبَ بِسَمْعِھِمْ وَاَبْصَارِھِمْ : (اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کے کانوں اور آنکھوں کو ضائع کر دے) اگر اللہ چاہیں تو ان کے کانوں کو لے جائیں۔ بجلی کی کڑک سے۔ وَاَبْصَارِھِمْ : اور آنکھوں کو بجلی کی چمک سے۔ نحو : شاء کا مفعول محذوف ہے۔ کیونکہ جواب اس پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہیں۔ ان کے کانوں اور آنکھوں کو لے جانا تو لے جائیں۔ قاعدہ : شاء کے لفظ میں حذف مفعول کثرت سے آیا ہے۔ مگر کسی انو کھے مقام پر مفعول کو ظاہر کرتے ہیں۔ جیسا اس شعر میں ہے۔ فلوشئت ان ابکی دما لبکیتہ ٭ علیہ ولکن ساحۃ الصبراوسع : (اگر میں اس پر خون کے آنسو رونا چاہتا تو روتا۔ لیکن صبر کا میدان وسیع ہے) اسی طرح اس ارشاد میں جو سورة الانبیاء آیت نمبر 17 میں لَوْاَرَدْنَا اَنْ نَّتَّخِذَ لَھْوًا میں اور سورة الزمر لواراداللّٰہ ان یتخذولدا میں ( لھوا اور ولدًا ظاہر فرمائے گئے ہیں) اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ : (اللہ تعالیٰ بیشک ہر چیز پر قادر ہے)
Top