Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 243
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ هُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ١۪ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا١۫ ثُمَّ اَحْیَاهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو خَرَجُوْا : نکلے مِنْ : سے دِيَارِھِمْ : اپنے گھر (جمع) وَھُمْ : اور وہ اُلُوْفٌ : ہزاروں حَذَرَ : ڈر الْمَوْتِ : موت فَقَالَ : سو کہا لَهُمُ : انہیں اللّٰهُ : اللہ مُوْتُوْا : تم مرجاؤ ثُمَّ : پھر اَحْيَاھُمْ : انہیں زندہ کیا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَذُوْ فَضْلٍ : فضل والا عَلَي النَّاسِ : لوگوں پر وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ : اکثر النَّاسِ : لوگ لَا يَشْكُرُوْنَ : شکر ادا نہیں کرتے
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو (شمار میں) ہزاروں ہی تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل بھاگے تھے تو خدا نے ان کو حکم دیا کہ مرجاؤ پھر ان کو زندہ بھی کردیا کچھ شک نہیں کہ خدا لوگوں پر مہربانی رکھتا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
آیت 243 : اَلَمْ تَرَ (کیا آپ نے نہیں دیکھا) یہ ہمزہ تقریر و تاکید کے لئے ہے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے اہل کتاب اور احبار اولین سے یہ واقعہ سن رکھا تھا اور ان کی حالت پر تعجب کے اظہار کے لئے بھی ہے۔ دوسرا قول : یہ کلام تعجب دلانے میں ایک مثل بن گیا۔ اس سے ان لوگوں کو مخاطب کیا گیا۔ جنہوں نے اس واقعہ کو نہ دیکھا اور نہ سنا تھا۔ تاکہ مثل سے بیخبر ہونے سے ان پر تعجب کا اظہار ہو۔ دیار سے مراد : اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ (ان لوگوں کو جو اپنے گھروں سے نکلے) یعنی اپنی بستی و شہر سے بعض نے کہا یہ بستی واسط ہے جہاں طاعون پڑنے پر لوگ وہاں سے بھاگ نکلے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو موت دے دی۔ پھر حضرت حزقیل ( علیہ السلام) کی دعا سے ان کو دوبارہ زندہ کیا۔ دوسرا قول : یہ بنی اسرائیل کے لوگ ہیں ان کے بادشاہ نے ان کو جہاد کی دعوت دی۔ تو یہ موت سے ڈر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو آٹھ دن تک موت کی نیند سلایا۔ پھر ان کو زندہ کیا۔ وَہُمْ اُلُوْفٌ (اور وہ ہزاروں تھے) : یہ حال ہونے کی وجہ سے موضع نصب میں ہے۔ اس میں دلیل ہے کہ اُلُوْفٌکا لفظ کثرت کے لئے بولا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ جمع کثرت ہے یہ اَلْف کی جمع ہے۔ الاف کی نہیں۔ حَذَرَ الْمَوْتِ (موت کے ڈر سے) یہ مفعول لہٗ ہے۔ فَقَالَ لَہُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْا (پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا کہ مر جائو) یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو موت دے دی۔ موت ‘ موت میں فرق : نکتہ : یہ انداز تعبیر اس لئے اختیار فرمایا گیا تاکہ ظاہر ہو کہ ان تمام کی موت ایک آدمی کی طرح تھی۔ اللہ تعالیٰ کے حکم و مشیت سے یہ موت عادۃً موت سے مختلف ہے۔ اس میں مسلمانوں کو جہاد پر ابھارا کہ جب موت کے بغیر چارئہ کار نہیں۔ اور اس سے بھاگنے کا چارہ نہیں تو زیادہ بہتر ہے کہ وہ موت اللہ تعالیٰ کی راہ میں پیش آئے۔ ثُمَّ اَحْیَاہُمْ (پھر ان کو زندہ کیا) تاکہ وہ عبرت حاصل کریں اور جان لیں اللہ کے حکم و فیصلے سے بھاگنا ممکن نہیں۔ اس کا عطف فعل محذوف پر ہے تقدیر عبارت یہ ہے۔ پس وہ مرگئے پھر ان کو زندہ کردیا۔ یا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان فقال لہم اللّٰہ موتوا کا معنی ہی یہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو موت دے دی۔ وہ معنوی اعتبار سے اس پر عطف تھا۔ اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْفَضْلٍ عَلَی النَّاسِ (بےشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر مہربانی کرنے والے ہیں) اس طرح کہ ان کو ایسے واقعات دکھاتے ہیں جن سے وہ عبرت حاصل کریں۔ جیسا کہ ان کو دکھایا اور جیسا ان کا واقعہ بیان کر کے تمہیں دکھایا۔ یا دوسرا قول : لوگوں پر فضل فرمانے والے ہیں کہ ان لوگوں کو زندہ کردیا۔ تاکہ وہ عبرت حاصل کریں اور کامیاب ہوں۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتے۔ تو ان کو مردہ چھوڑ دیتے۔ قیامت کے دن تک وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَ (لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے اس پر)
Top