Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 29
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا١ۗ ثُمَّ اسْتَوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ فَسَوّٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ١ؕ وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠   ۧ
ھُوَ : وہی ہے الَّذِىْ : جس نے خَلَقَ : پیدا کیا لَكُمْ : واسطے تمہارے مَّا : جو کچھ ہے فِى الْاَرْضِ : زمین میں جَمِيْعًا : سارے کا سارا / سب کچھ ثُمَّ : پھر اسْتَوٰٓى : وہ متوجہ ہوا / ارادہ کیا اِلَى : طرف السَّمَآءِ : آسمان کے فَسَوّٰىھُنَّ : پس برابر کردیا ان کو / درست بنایا ان کو / ہموار کیا ان کو سَبْعَ : سات سَمٰوٰتٍ : آسمانوں کو وَ : اور ھُوَ : وہ بِكُلِّ : ساتھ ہر شَىْءٍ : چیز کے عَلِيْمٌ : خوب علم والا ہے
وہی تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں تمہارے لئے پیدا کیں پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا تو ان کو ٹھیک سات آسمان بنادیا اور وہ ہر چیز سے خبردار ہے،
لام کی حکمت : ھُوَالَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ : (وہ وہی ذات ہے جس نے تمہارے لیے سب کچھ بنایا) نمبر 1: لکم کی لام اجلیہ ہے تمہاری خاطر۔ نمبر 2: اور تمہارے دین دنیا میں فائدہ پہنچانے کے لیے پیدا کیا۔ اول تو ظاہر ہے اور دوسرے قول میں غور کرو۔ اس میں جو عجائبات ہیں وہ صانع قادر حکیم علیم کی ہستی پر دلالت کرنے والے ہیں اور اس میں آخرت کی یاد ہے۔ کیونکہ زمین کی پناہ گاہ اس کے ثواب کو یاد دلانے والی ہے اور اس کی ناپسندیدہ چیزیں اس کے عقاب کو یاد دلانے والی ہیں۔ علامہ کرخی۔ ابوبکر رازی اور معتزلہ کا استدلال ہے کہ خلق لکم بتلا رہا ہے کہ تمام اشیاء صحیحہ مباح الاصل ہیں۔ جَمِیْعًا (سب کچھ) نحو : یہ ما سے حال ہونے کی بناء پر منصوب ہے۔ ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآئِ : (پھر آسمان کا قصد کیا) الاستوائ۔ اعتدال و درستگی کو کہتے ہیں کہا جاتا ہے استوی العود یعنی قام واعتدل۔ سیدھی لکڑی درست کھڑی ہوئی۔ پھر کہا گیا استوٰی الیہ کالسھم المرسل چھوڑے ہوئے تیر کی طرح سیدھا ہوا جبکہ وہ ٹھیک نشانے پر لگے۔ اور کسی طرف نہ مڑے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا یہی مطلب ہے ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآئِ ۔ یعنی وہ متوجہ ہوا۔ اور آسمان کو بنانے کی طرف توجہ کی زمین کی تمام اشیاء بنانے کے بعد بغیر اس کے کہ اس دوران کسی اور چیز کے پیدا کرنے کی طرف توجہ کرے۔ فَسَوّٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ : (انہیں سات آسمان ہموار بنادیا) یہ مبہم ہے اس کی تفسیر سبع سمٰوٰتٍ ہے جیسا کہ ان کے قول رُبّہٗ رجلاً (بہت سے آدمیوں کو میں ملا ہوں) یہ بھی کہا گیا۔ کہ ضمیر السماء کی طرف لوٹ رہی ہے اگرچہ لفظ واحد ہے مگر معنی جمع کا ہے کیونکہ یہ جنس کے معنی میں ہے۔ مراد تسویہ : تسویتھن : نمبر 1: ان کا پیدائش میں برابر اور پختگی اور ٹیڑھ اور پھٹنے سے محفوظ ہونا دوسرا قول : ان کی خلقت کی تکمیل۔ ثم سے یہاں آسمان کی پیدائش کی فضیلت زمین کی پیدائش پر ظاہر کرنا مقصود ہے اور یہ والارض بعد ذلک دحٰھا۔ سورة النازعات آیت نمبر 30 کے مخالف نہیں کیونکہ زمین کا وجود آسمان کی پیدائش سے مقدم ہے البتہ زمین کا بچھاناوہ زمین کی پیدائش سے متاخر ہے حضرت حسن (رح) کا قول ہے زمین کی پیدائش موضع بیت المقدس میں مہر (پتھر) کی طرح تھی اس پر چمٹا ہوا دھواں تھا پھر دھواں اٹھایا اور اس سے آسمانوں کو بنادیا۔ اور سب کو اپنی جگہ رہنے دیا۔ اس سے زمین کو پھیلادیا۔ سورة الانبیاء آیت نمبر 30 اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا 1 وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ 1 اَفَلاَ یُؤْمِنُوْنَ کا یہی مطلب ہے وہ چمٹنا جس کو رتق فرمایا۔ وَھُوَبِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ : (وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے) پس اسی لیے ان کو برابر مضبوط بلا تفاوت وفرق کے بنایا۔ اور زمین میں جو کچھ بنایا وہ زمین والوں کی ضروریات و فوائد کے مطابق بنایا۔ قراءت : وَھُوَ اور اس کے ہم مثلوں کو ابو عمرو ورش (رح) کے علاوہ مدنی اور دوسرے قراء نے اس طرح پڑھا ہے۔ ورش اور ابو عمرو اور علی رحمھم اللّٰہ نے وَھْوَ پڑھا۔ گویا وائوکو نفس کلمہ سے قرار دیا۔ پس یہ عَضْدٌ کی طرح ہوا اور دیگر قراء کے ہاں عضد کی طرح ہوا۔
Top