Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 31
وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓئِكَةِ١ۙ فَقَالَ اَنْۢبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَعَلَّمَ : اور سکھائے آدَمَ : آدم الْاَسْمَآءَ : نام كُلَّهَا : سب چیزیں ثُمَّ : پھر عَرَضَهُمْ : انہیں سامنے کیا عَلَى : پر الْمَلَائِکَةِ : فرشتے فَقَالَ : پھر کہا اَنْبِئُوْنِیْ : مجھ کو بتلاؤ بِاَسْمَآءِ : نام هٰٓؤُلَآءِ : ان اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
اور اس نے آدم کو (سب چیزوں کے) نام سکھائے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے کیا اور فرمایا اگر سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ
وَعَلَّمَ اٰدَمَ : ( اور سکھائے آدم ( علیہ السلام) کو) نمبر 1: عجمی نام ہے قریب ترین بات یہ ہے کہ فَاعَلَ اٰزر کی طرح ہے۔ نمبر 2: آدم کو ادیم الارض سے مشتق مانا جائے۔ یا اَدَمَۃِ جیسے کہ یعقوب العقب اور ادریس۔ درس سے اور ابلیس ابلاس سے مشتق ہے۔ الْاَسْمَائَ کُلَّھَا : (نام تمام) یعنی مسمیات کے نام۔ مضاف الیہ کے معلوم ہونے اور اسماء کی دلالت موجود ہونے کی وجہ سے حذف کردیا۔ کیونکہ اسم مسمّی پر دلالت کرتا ہے اور مضاف الف لام کے عوض میں لائے۔ جیسے اشتعل الرأس شیبًا۔ سورة مریم آیت نمبر 4 میں الر ّأس ہے۔ ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلٰٓپکَۃِ 3 : (پھر ان کو فرشتوں کے روبرو پیش فرمایا) ۔ اہم تنبیہ : یہ درست نہیں کہ مقدر مانا جائے اور کہا جائے علّم آدم مسمیات الاسماء کہ مضاف کو حذف کیا اور مضاف الیہ کو اس کے قائم مقام بنادیا۔ اس لیے کہ تعلیم کا تعلق اسماء سے ہے مسمیات سے نہیں جیسا دوسری آیت انبؤنی باسمآء ھٰؤلاَء (تو ان کو بتلا ان کے نام) اور انبئھم باسماء ھم میں واضح طور پر اسماء موجود ہیں۔ انبئونی بِھٰٓؤُلَآئِ ، انبئھم بھم نہیں فرمایا۔ تعلیم اسماء کا مطلب : اسمائے مسمیات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہ اجناس دکھائیں جن کو اس نے پیدا کیا۔ اور ان کا نام اس کو سکھایا۔ کہ اس کا نام فرس ہے اس کا بعیر اور اس کا فلاں نام ہے اور اس کا نام یہ ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ہر چیز کا نام ان کو سکھایا حتیٰ کہ پیالہ اور کفگیر بھی۔ سوال : ان سے سوال کیا حالانکہ اللہ تعالیٰ کو ان کا عجز معلوم تھا۔ جواب : تبکیت ولا جواب کرنے کے لیے۔ فَقَالَ اَنچْبِؤُنِیْ ، (تم مجھے خبر دو ؟ ) بِاَسْمَآئِ ھٰٓؤُلَآئِ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ ۔ (ان چیزوں کے ناموں کی اگر تم اپنے گمان میں سچے ہو) ۔ کہ میں زمین میں مفسدین سفاکین دماء کو خلیفہ بنانے والا ہوں۔
Top