Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 55
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
وَاِذْ قُلْتُمْ : اور جب تم نے کہا يَا مُوْسَىٰ : اے موسٰی لَنْ : ہرگز نُؤْمِنَ : ہم نہ مانیں گے لَکَ : تجھے حَتَّىٰ : جب تک نَرَى اللہ : اللہ کو ہم دیکھ لیں جَهْرَةً : کھلم کھلا فَاَخَذَتْكُمُ : پھر تمہیں آلیا الصَّاعِقَةُ : بجلی کی کڑک وَاَنْتُمْ : اور تم تَنْظُرُوْنَ : دیکھ رہے تھے
اور جب تم نے (موسی سے) کہا کہ موسیٰ جب تک ہم خدا کو سامنے نہ دیکھ لیں گے تم پر ایمان نہیں لائیں گے تو تم کو بجلی نے آگھیرا اور تم دیکھ رہے تھے
تین فائ : پہلا فاء سبب کے لیے ہے کیونکہ ظلم توبہ کا سبب ہے۔ اور دوسرا فاء تعقیب کے لیے ہے۔ اس لیے معنی یہ ہوگا۔ توبہ کا عزم کرو۔ پس اپنے نفسوں کو قتل کرو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قتل النفس مقرر فرمائی۔ اور تیسراؔ فاء شرط محذوف سے متعلق ہے۔ گویا اس طرح فرمایا۔ فان فعلتم اگر تم نے ایسا کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے تمہاری توبہ قبول کرلی۔ وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَھْرَۃً : (جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم ہرگز تم پر یقین نہ کریں گے یہاں تک کہ ہم اللہ تعالیٰ دیکھ لیں سامنے) جھرۃ : آنکھوں سے دیکھیں۔ نمبر 1 نحو : یہ مصدر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے جیسا قرفصا کا لفظ جلوس کے فعل سے ای جلس قرفصا۔ نمبر 2: یا نَرٰی سے حال ہے یعنی ذوی جہرۃ۔ ایسا دیکھنا جو کہ ظہور والاہو۔ فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ : (پس تمہیں کڑک نے پکڑ لیا) نمبر 1: یعنی موت نمبر 2: یہ کہا گیا کہ آگ آسمان کی طرف سے آئی اس نے ان کو جلایا۔ روایت کیا گیا کہ جبل طور کی طرف جاتے ہوئے جن ستّر 70 افراد نے یہ مطالبہ کیا اور ان کو کہنے لگے ہم نے ان کی طرح بچھڑے کی عبادت نہیں کی پس آپ اللہ کی ذات ہمیں آنکھوں سے دکھلائیں۔ موسیٰ ( علیہ السلام) نے فرمایا۔ میں نے خود یہ سوال کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انکار فرمایا تھا۔ انہوں نے کہا تو نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ہم ہرگز تم پر اعتماد نہ کریں گے۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو ظاہر نہ دیکھ لیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان پر صاعقہ بھیج دیا۔ جس نے ان کو جلا دیا۔ دلیل معتزلہ : معتزلہ نے اس آیت سے نفی رؤیت باری تعالیٰ ثابت کرنے کی کوشش کی دلیل یہ دی کہ اگر یہ جائز ہوتی تو جائز الثبوت پر ان کو سزانہ دی جاتی ؟ وجوہ سزا : جواب نمبر 1: ان کو سزا تو انکار کے سبب ملی۔ اس لیے کہ ان کا قول انک رأیت اللّٰہ فلن نؤمن لک حتّٰی نری اللّٰہ جھرۃ۔ ان کی طرف سے کفروانکار تھا۔ نمبر 2: اس لیے بھی کہ وہ موسیٰ ( علیہ السلام) کے ظہور معجزات کے بعد ایمان سے لوٹ رہے تھے۔ جب تک وہ اپنے رب کو سامنے نہ دیکھ لیں۔ حالانکہ انبیاء ( علیہ السلام) پر ایمان ظہور معجزات کے بعد لازم ہے ان سے نئی نشانیاں طلب کرنا جائز نہیں۔ نمبر 3: اور اس لیے بھی کہ انہوں نے رشدو ہدایت طلب کرنے کے لیے سوال نہ کیا تھا۔ بلکہ محض تعنت وعناد کی خاطر سوال کیا تھا۔ (جس پر سزا ملنی ضروری تھی) وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ : (اور تم اس صاعقہ کو دیکھ رہے تھے) جب وہ اتری۔
Top