بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Madarik-ut-Tanzil - Al-Anbiyaa : 1
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ
اِقْتَرَبَ : قریب آگیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے حِسَابُهُمْ : ان کا حساب وَهُمْ : اور وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر رہے ہیں
لوگوں کا حساب (اعمال کا وقت) نزدیک آپہنچا ہے اور وہ غفلت میں (پڑے اس سے) منہ پھیر رہے ہیں
قربِ قیامت اور لوگوں کی غفلت : 1: اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُھُمْ وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ (لوگوں کا حساب قریب آگیا اور وہ غفلت میں پڑے ہوئے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ) اِقْتَرَبَ قریب ہوا۔ لِلنَّاسِ (لوگوں کیلئے) ۔ نحو : لام اقترب کا صلہ ہے۔ قول ابن عباس ؓ : اس سے مشرک مراد ہیں۔ کیونکہ بعد والی صفات کا مصداق مشرک ہی ہیں۔ حِسَابُھُمْ (ان کا حساب) اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے محاسبہ کا وقت۔ اور ان کے اعمال پر سزا اور بدلہ کا دن یعنی یوم القیامۃ۔ وجہ : نمبر 1۔ اس لئے کہا کیونکہ گزشتہ کی نسبت باقی رہنے والا وقت تھوڑا ہے۔ نمبر 2۔ ہر آئندہ کو قریب کہا جاتا ہے۔ وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ (اور وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں) یعنی اپنے حساب کے متعلق اور اس جگہ جو معاملہ انہیں پیش آنے والا ہے۔ مُّعْرِضُوْنَ (وہ اعراض کرنے والے ہیں) اس دن کی تیاری سے پس قریب آنا یہاں عام ہے۔ اور غفلت واعراض مختلف لوگوں کے حساب سے مختلف ہوتے ہیں نمبر 1۔ بعض حساب سے غافل اس بناء پر ہوتے ہیں کہ وہ اپنی دنیا میں مستغرق ہوتے ہیں اور اپنے آقا سے اعراض کرنے والے ہوتے ہیں۔ نمبر 2۔ بعض اپنے حساب سے اس لئے غافل ہیں کہ انہوں نے اپنے مولیٰ کیلئے اپنے آپ کو ہلاک کرلیا اور دنیا سے منہ موڑ لیا۔ ایسے لوگوں کو تو اس غفلت سے افاقہ دیدار مولیٰ سے ہوگا۔ البتہ پہلی قسم موت کی یلغار کے وقت بیدارہوتے ہیں۔ پس تم پر ضروری ہے کہ محاسبہ سے پہلے اپنے آپ کا محاسبہ کرو۔ خبردار کئے جانے سے پہلے خود خبردار ہو اور غافلین سے کنی کترائو اور خالق ومالک کی یاد میں مگن ہوجائو تاکہ رب العالمین کی ملاقات نصیب ہو۔
Top