Madarik-ut-Tanzil - Al-Anbiyaa : 101
اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤى١ۙ اُولٰٓئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ سَبَقَتْ : پہلے ٹھہر چکی لَهُمْ : ان کے لیے مِّنَّا : ہماری (طرف) سے الْحُسْنٰٓى : بھلائی اُولٰٓئِكَ : وہ لوگ عَنْهَا : اس سے مُبْعَدُوْنَ : دور رکھے جائیں گے
جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے پہلے بھلائی مقرر ہوچکی ہے وہ اس سے دور رکھے جائیں گے
اطاعت والے جہنم سے محفوظ : 101: اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓی (جن کے لئے ہماری طرف سے بھلائی مقدر ہوچکی ہوگی) الحسنیؔ جن میں مرتبہ والی خصلت و عادت۔ یہ احسن کی مؤنث ہے اور نمبر 1۔ سعادت کو کہتے ہیں نمبر 2۔ ثواب کی بشارت نمبر 3۔ اطاعت کی توفیق۔ شان نزول : یہ آیت ابن الزبعری کے اس قول کے جواب میں اتری جو اس نے آنحضرت ﷺ کی تلاوت جو صنادیدِ قریش کے سامنے کی گئی اس کو سن کر کہا : انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جہنم الی قولہ خالدون۔ تو وہ کہنے لگا کیا یہود نے عزیر اور نصاریٰ نے مسیح اور نبو ملیح نے ملائکہ کی عبادت نہیں کی۔ اور ماتعبدونؔ میں ماؔ غیر ذوی العقول کیلئے آتا ہے۔ اس میں یہ عاقل شامل ہی نہیں مگر وہ معاندین تھے اس لئے ماؔ کو عموم پر قرار دیکر اس میں شامل کرلیا۔ اُولٰٓئِکَ (وہ یعنی عزیر و مسیح اور ملائکہ) عَنْہَا (اس سے) یعنی جہنم سے مُبْعَدُوْنَ (دور رکھے جائیں گے) ۔ کیونکہ انہوں نے نہ عبادت کا حکم دیا اور نہ اس کو پسند کرتے تھے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ : ان الذین سبقت لہم منا الحسنی سے مراد تمام مومن ہیں۔ اس لئے کہ علی ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ اور فرمایا میں ان لوگوں میں سے ہوں اور ابو بکر، عمر، عثمان طلحہ، زبیر، سعد، عبدالرحمان، ان میں سے ہیں۔ قول جنید (رح) : شروع میں ہماری عنایت ان پر ہوچکی انتہاء میں ہماری ولایت ان پر ظاہر ہوجائے گی۔
Top