Madarik-ut-Tanzil - Al-Anbiyaa : 37
خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ١ؕ سَاُورِیْكُمْ اٰیٰتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ
خُلِقَ : پیدا کیا گیا الْاِنْسَانُ : انسان مِنْ : سے عَجَلٍ : جلدی (جلد باز) سَاُورِيْكُمْ : عنقریب میں دکھاتا ہوں تمہیں اٰيٰتِيْ : اپنی نشانیاں فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ : تم جلدی نہ کرو
انسان (کچھ جلدباز ہے کہ گویا) جلد بازی ہی سے بنایا گیا ہے میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھلاؤں گا تو تم جلدی نہ کرو
خمیر میں جلد بازی : 37: خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ (انسان جلدی ہی کے خمیر کا بنا ہے) الانسانؔ کی تفسیر جنس سے کی گئی۔ دوسرا قول : یہ نضر بن حارث کے متعلق اتری وہ عذاب کا جلدی مطالبہ کرتا تھا۔ العجلؔ العجلۃ یہ دونوں مصدر ہیں اور اس کا معنی وقت سے کسی چیز کا مقدم ہونا۔ اور ظاہر یہی ہے کہ مراد جنس انسان ہے انسان میں عجلت رکھی گئی ہے۔ اور بےصبری اور جلدی کا ایسا مظاہرہ کرتا ہے گویا کہ اس کی پیدائش ہی مادہ جلدی سے ہوئی ہے۔ محاورہ عرب میں جو کثرت سے سخاوت کرنے والا ہو اس کے متعلق کہتے ہیں : خلق من الکرم۔ کہ یہ تو سخاوت سے بنا ہے۔ عجلت میں افراط پر اولاً انسان کی مذمت کی اور بتلایا کہ اس کی طبع میں پڑی ہے۔ پھر انسان کو منع کیا اور اس پر ڈانٹ پلائی گویا اس طرح فرمایا کہ انسان سے جلدی کرنا نئی بات نہیں وہ اس کی جبلت ہے اور طبیعت ثانیہ اور عادت مالوفہ ہے اور ان کے اجزاء میں رکھ کر جوڑی گئی ہے۔ دوسر اقول العجلؔ حمیری زبان میں مٹی کو کہتے ہیں جیسا کہ انکا شاعر کہتا ہے۔ والنبع فی الصخرۃ الصَّمَّاء مَنْبِتُہ والنَّخْلُ تنبتُ بین الماء و العَجَلِ نبع درخت کے اگنے کا مقام تو سخت پتھر ہیں اور کھجور پانی اور مٹی میں اگتی ہیں۔ فائدہ : اللہ تعالیٰ نے جلد بازی سے منع کیا حالانکہ یہ انسان کی فطرتی چیز ہے۔ جیسا کہ شہوت کو مٹانے کا حکم دیا جبکہ وہ اس کے ترکیبی اجزاء میں پائی جاتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو قمع شہوت اور ترک عجلت کی طاقت عنایت فرمائی ہے اس کا بےمحل استعمال منع ہے۔ نحو : من عجل یہ حال ہے۔ سَاُورِیْکُمْ اٰیٰتِیْ (میں اپنی آیات دکھائوں گا) آیات سے قہر و غضب والی نشانیاں فَـلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ (پس تم مجھے سے وہ جلدی مت مانگو) ان کے لانے کیلئے۔ قراءت : یعقوب اور سہل نے یاء سے یستعجلون پڑھا۔ وصل میں عیاش نے اسی طرح پڑھا۔
Top