Madarik-ut-Tanzil - Al-Anbiyaa : 3
لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اَسَرُّوا النَّجْوَى١ۖۗ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا١ۖۗ هَلْ هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ١ۚ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ
لَاهِيَةً : غفلت میں ہیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاَسَرُّوا : اور چپکے چپکے بات کی النَّجْوَي : سرگوشی الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا (ظالم) هَلْ : کیا ھٰذَآ : یہ اِلَّا : مگر بَشَرٌ : ایک بشر مِّثْلُكُمْ : تم ہی جیسا اَفَتَاْتُوْنَ : کیا پس تم آؤگے السِّحْرَ : جادو وَاَنْتُمْ : اور (جبکہ) تم تُبْصِرُوْنَ : دیکھتے ہو
ان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور ظالم لوگ (آپس میں) چپکے چپکے باتیں کرتے ہیں کہ یہ (شخص کچھ بھی) نہیں مگر تمہارے جیسا آدمی ہے تو تم آنکھوں دیکھتے جادو (کی لپیٹ) میں کیوں آتے ہو ؟
3: لَا ھِیَۃً قُلُوْبُھُمْ (قرآن میں غور کرنے اور انجام کو سوچنے سے ان کے دل غافل ہیں) ۔ نحو : یلعبون کی ضمیر سے لا ھیۃً حال ہے۔ نمبر 2۔ یہ اسمعوہ کی ضمیر سے۔ ہم یلعبون اور لاھیۃ دونوں حال ہیں۔ نمبر 3۔ بعض نے لا ھیۃ کو مرفوع پڑھا ہے اس صورت میں یہ دوسری خبر ہے ہم مبتدا یلعبون خبر اول ہے اور قلوبھم کا رفع لا ھیۃ کی وجہ سے ہے۔ اللغۃ : لا ھیۃؔ کا لفظ لَھَا یَلْھُو عنہ سے لیا گیا ہے جبکہ اس سے غافل ہو مطلب یہ ہے کہ ان کے دل مقصود سے غافل ہیں۔ ابوبکر و راق کا قول غافل دل وہ ہے جو دنیا اور اس کی رونق میں مشغول ہو۔ اور آخرت اور اس کی ہولناکیوں سے کنارہ کش ہو۔ وَاَسَرُّوا النَّجْوَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا (اور انہوں نے چھپا کر سرگوشیاں کیں اور جنہوں نے ظلم کیا) اَسرَّ کا معنی اخفاء میں مبالغہ کیا۔ النجویٰ تناجی کا اسم ہے پھر اسرّوا کی وائو سے الذین ظلموا بدل ہے۔ پھر اسرّواؔ کو اس لئے لائے تاکہ بتلا دیا جائے کہ جس بات میں انہوں نے راز داری کی اس میں ظلم سے موسوم یہی لوگ ہیں اس طرح یہ اس محاورہ کے مطابق ہے اکلونی البراغیث۔ نمبر 2۔ الناس ؔ کی صفت ہونے کی وجہ سے محلاً مجرور ہے یا بدل ہے۔ نمبر 3۔ ذم کی وجہ سے منصوب المحل ہے۔ نمبر 4۔ یہ مبتدا ہے اور اس کی خبر مقدم اسرّوا النجوٰی ہے ای والذین ظلموا اسروا النجوٰی نمبر 5۔ اسرّوا سے پہلے ھؤلاء مبتدا محذوف اور الذین ظلموا سے بھی پہلے ھمؔ مبتدا محذوف ہے۔ معجزے کو جادو کہا : ھَلْ ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ (یہ تو تم ہی جیسا انسان ہے کیا تم پھر بھی دیدہ و دانستہ جادو کی بات سننے جائو گے) : نمبر 1۔ یہ سارا کلام النجوٰی سے بدل ہونے کی بناء پر محلاً منصوب ہے۔ ای اسرّوا ھذا الحدیث۔ نمبر 2۔ قالوا کو مضمر مان کر اسے متعلق کرنا بھی جائز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اعتقاد رکھا کہ رسول تو فرشتہ ہوسکتا ہے اور جو انسان نبوت کا مدعی ہو اور معجزہ پیش کرے وہ جادوگر ہے اور اس کا معجزہ سحر ہے۔ اسی لئے انہوں نے انکار کے انداز میں کہا کہ تم آنکھوں سے جادو کو دیکھتے ہوئے بھی اندھا دھند جادو کو قبول کرلو گے ؟
Top