Madarik-ut-Tanzil - Al-Anbiyaa : 63
قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ١ۖۗ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا فَسْئَلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا بَلْ : بلکہ فَعَلَه : اس نے کیا ہے كَبِيْرُهُمْ : ان کا بڑا ھٰذَا : یہ فَسْئَلُوْهُمْ : تو ان سے پوچھ لو اِنْ : اگر كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ : وہ بولتے ہیں
(ابراہیم نے) کہا (نہیں) بلکہ یہ ان کے اس بڑے (بت) نے کیا (ہوگا) اگر یہ بولتے ہوں تو ان سے پوچھ لو
63: قَالَ (ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا) بَلْ فَعَلَہٗ (بلکہ اس کو کیا ہے) قراءت : کسائی اس پر وقف کرتے ہیں ای فعلہ من فعلہ۔ نحو : اس میں فاعل محذوف ہے اور وہ جائز نہیں اور یہ جائز ہے کہ فعل کی اسناد اس فتٰی کی طرف کی جائے جو اس آیت میں ہے سمعنا فتًی یذکرھم نمبر 2۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف نسبت کی جائے جن کا تذکرہ اس آیت میں ہے۔ یٰٓاِ براہیم پھر کہا کَبِیْرُھُمْ ھٰذَا (بڑا انکا یہ ہے) یہ مبتدا اور خبر ہے۔ اکثر کا قول : فعلہٗ پر وقف نہیں اور کبیرھمؔ اس کا فاعل ہے اور ھٰذا اس کی صفت ہے یا بدل ہے اور فعل کی نسبت کبیرہُم کی طرف کی گئی اور مقصود اپنی ذات کیلئے اس کو پختہ کرنا ہے۔ اور ثابت کرنا ہے۔ جیسا کہ تعریض میں یہ طریقہ ہے۔ اس سے مشرکین کو شرمندہ کرنا اور ان پر اتمام حجت کرنا ہے۔ کیونکہ اگر وہ اس بات میں غور کرلیں گے تو بڑے کی عاجزی ان کے سامنے کھل جائے گی اور یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ وہ معبود نہیں اور نہ اس میں معبود بننے کی صلاحیت ہے اور یہ اسی طرح ہے جس طرح تمہیں تمہارا دوست کہے ( وقد کتبت کتابا بخط رشیق) حالانکہ تم نے اس کو واضح الفاظ میں خط لکھا ہو۔ أأنت کتبت ھذا ؟ کیا تم نے یہ خط لکھا ہے ؟ اور تمہارا دوست بالکل جاہل اور ان پڑھ ہو تو تم اس کے جواب میں کہو گے۔ بل کتبہٗ انت ! جناب یہ تو آپ نے ہی لکھا ہے۔ اس بات سے آپکا مقصد۔ اس خط کو اپنے لئے ثابت کرنا اور اس کے ساتھ استہزاء و مذاق دونوں ہی حاصل ہیں یہ خط کی اپنے سے نفی ہے۔ اور نہ اس امی کیلئے اس کا ثبوت ہے۔ بلکہ تم دونوں میں سے عاجز کیلئے اس کا اثبات ہو رہا ہے۔ اور معاملہ تم دونوں کے درمیان دائر ہے اس کے ساتھ بطور استہزاء کے اور دراصل خط پر قدرت رکھنے والے کیلئے اس کا اثبات بطور حقیقت گویا بت شکنی پر تعریض اقرار نما کی استہزاء کے طرز پر خود بت توڑنے کا اپنے لئے اقرار کیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کہا جائے جب آپ نے بتوں کو قطار درقطار دیکھا تو آپ کو بہت غصہ آیا اور بڑے پر غصہ بہت زیادہ تھا کیونکہ اس کی تعظیم وہ سب سے زیادہ کرتے تھے۔ اس لئے فعل کی نسبت بھی کبیرؔ کی طرف کردی گئی۔ کیونکہ جس طرح نسبت فعل خود فعل کرنے والے کی طرف ہوتی ہے۔ اسی طرح فعل کا اسناد اس کی طرف بھی کیا جاتا ہے جس پر فعل کا اثر ہو۔ اور یہ بھی درست ہے کہ اس بات کی حکایت ہو کہ جس کی طرف ان کے مذہب کا جواز لے جاتا تھا۔ اور جو انکا اعتقاد تھا گویا ان کو کہا ممکن ہے بڑے نے یہ کردیا ہو کہ اس کی موجودگی میں ان کی پوجا ہوتی ہے اس نے غضبناک ہو کر سبکو توڑ ڈالا تاکہ اس کی الوہیت میں شراکت نہ رہے۔ روایت میں وارد ہے کہ آپ نے فرمایا کہ بڑے کو اس بات پر غصہ آیا ہے کہ اس کے ساتھ ان چھوٹوں کی بھی عبادت ہو جبکہ وہ بڑا موجود ہو پس اس نے ان کو توڑ دیا۔ نمبر 2۔ یہ ایسی شرط سے متعلق ہے جو نہ ہونے والی ہے اور وہ بتوں کا بولنا ہے پس اس صورت میں یہ مخبربہٖ کی نفی ہے ای بل فعلہ کبیرھم۔ ان کانوا ینطقون (بلکہ اس کو ان کے بڑے نے کیا ہے اگر یہ بولتے ہیں) اور فسئلوھم ؔ یہ جملہ معترضہ ہے۔ ایک قول یہ ہے کبیرؔ کہہ کر اپنی ذات کی تعریض کی ہے اور اپنی ذات کی اضافت اس لئے کی کیونکہ آپ وہاں موجود تھے۔ فَسْئَلُوْھُمْ (پس ان سے دریافت کرو) ان کی حالت کے متعلق اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ (اگر وہ بولتے ہیں) اور تم ان کے عجز سے واقف ہو۔
Top