Madarik-ut-Tanzil - Al-Anbiyaa : 79
فَفَهَّمْنٰهَا سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ كُلًّا اٰتَیْنَا حُكْمًا وَّ عِلْمًا١٘ وَّ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَ الطَّیْرَ١ؕ وَ كُنَّا فٰعِلِیْنَ
فَفَهَّمْنٰهَا : پس ہم نے اس کو فہم دی سُلَيْمٰنَ : سلیمان وَكُلًّا : اور ہر ایک اٰتَيْنَا : ہم نے دیا حُكْمًا : حکم وَّعِلْمًا : اور علم وَّسَخَّرْنَا : اور ہم نے مسخر کردیا مَعَ : ساتھ۔ کا دَاوٗدَ : داود الْجِبَالَ : پہار (جمع) يُسَبِّحْنَ : وہ تسبیح کرتے تھے وَالطَّيْرَ : اور پرندے وَكُنَّا : اور ہم تھے فٰعِلِيْنَ : کرنے والے
تو ہم نے فیصلہ (کرنے کا طریق) سلیمان کو سمجھا دیا اور ہم نے دونوں کو حکم (یعنی حکمت ونبوت) اور علم بخشا تھا اور ہم نے پہاڑوں کو داود کا مسخر کردیا تھا کہ ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے اور جانوروں کو بھی (مسخر کردیا تھا) اور ہم ہی ایسا کرنے والے تھے
79: فَفَھَّمْنٰھَا (پس ہم نے سمجھا دیا) وہ فیصلہ یا فتویٰ ۔ سُلَیْمٰنَ (سلمان (علیہ السلام) کو ) دلیل : اس میں دلیل ہے کہ اس میں مصیب سلیمان (علیہ السلام) تھے۔ واقعہ : بکریوں نے ایک شخص کے کھیت کو رات کے وقت چرواہے کی عدم موجودگی میں چر کر برباد کردیا۔ فریقین حضرت دائود (علیہ السلام) کی خدمت میں فیصلہ لائے۔ آپ نے حکم دیا کہ بکریاں کھیت والوں کو دیدیں جائیں اس لئے کہ نقصان ان بکریوں کی قیمت کے برابر تھا۔ سلیمان (علیہ السلام) نے کہا جبکہ ان کی عمر صرف گیارہ برس تھی۔ اس کے علاوہ دوسری بات فریقین کیلئے زیادہ مناسب ہے۔ پس ان کو تاکید کی گئی کہ وہ ضروری فیصلہ کریں۔ تو انہوں نے کہا میرا خیال یہ ہے کہ بکریاں سردست کھیتی والوں کے سپرد ہوں وہ ان کے دودھ سے نفع اٹھائیں اور ان کے بچوں اور اون کو اپنے استعمال میں لائیں اور کھیتی بکریوں کے مالکوں کے حوالہ کی جائے وہ اس کی حفاظت اور آبیاری کرتے رہیں تآنکہ کھیتی اپنے جوبن کو پہنچ جائے۔ پھر دونوں ایک دوسرے کی طرف اپنی اپنی چیز لوٹا دیں۔ اس پر داوٗد (علیہ السلام) نے فرمایا فیصلہ یہی اصوب ہے جو تم نے کیا اور اس کو نافذ فرمادیا۔ اور یہ ہر دو ہستیوں کا اجتھاد تھا۔ اور یہ اس شریعت میں درست تھا۔ شریعت ِمحمدیہ : ہماری شرع میں امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے حامی علماء کے ہاں جانوروں کا اس قسم کا نقصان خواہ رات کو ہو یا دن کو اس پر ضمان نہیں ہے جبکہ چرواہا ساتھ نہ ہو۔ جب سائق و چرواہا ساتھ ہو قائد لے جارہا ہو تو ایسی صورت میں ضمان آئے گا۔ یہ عمداً نقصان کرنے میں شمار ہوگا۔ امام شافعی (رح) کے نزدیک رات کو اس قسم میں ضمان لازم ہے۔ قول جصاص : انہوں نے ضمان کو لازم اس لئے قرار دیا کیونکہ انہوں نے ان کو کھلا چھوڑا تھا باڑہ میں بند نہ کیا تھا اب ضمان آپ ﷺ کے اس فرمان سے منسوخ ہے۔ العجماء جُبَارٌ۔ (احمد، بخاری، مسلم) قول مجاہد۔ : یہ فیصلہ صلح کی صورت میں تھا۔ اور داوٗد (علیہ السلام) کا فعل وہ حکومتی فیصلہ تھا۔ اور صلح تو بہر حال بہتر ہے۔ وَکُلًّا (اور ہر ایک) داوٗد و سلیمان میں سے اٰتَیْنَا حُکْمًا (اور ہر ایک کو ہم نے نبوت عنایت فرمائی) وَّ عَلْمًا (اور علم) حکم کے مناسب معرفت و پہچان۔ وَّ سَخَّرْنَا (اور ہم نے تابع کردیا) مطیع کردیا۔ مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنٰ (دا وٗد کے ساتھ پہاڑوں کو وہ تسبیح کرتے تھے) ۔ پہاڑوں اور پرند کی تسبیح : نحو : یسبحن یہ حال ہے اور مسبحات کے معنی میں ہے۔ نمبر 2۔ جملہ مستانفہ ہے گویا کہنے والا اس طرح کہہ رہا ہے کس طرح پہاڑوں کو ان کے تابع کیا ؟ اور جواب فرمایا یسبحن۔ وَالطَّیْرَ (اور پرندوں کو) اس کا عطف الجبال پر ہے۔ نمبر 2۔ مفعول معہ ہے۔ سوال : پہاڑوں کو پرندوں پر مقدم کیونکر کیا گیا ؟ جواب : کیونکہ ان کی تسبیح و تسخیر دونوں عجیب تر ہیں اور غریب تر ہے۔ اور معجزہ میں داخل ہے کیونکہ وہ حماد محض ہیں۔ روایت ہے جب داوٗد (علیہ السلام) پہاڑوں کے پاس سے تسبیح کرتے ہوئے گزرتے تو پہاڑ تسبیح سے انکا جواب دیتے۔ دوسرا قول پہاڑ ان کے ساتھ چلتے جہاں جاتے : وَکُنَّا فٰعِلِیْنَ (اور یہ ہم ہی کرنے والے تھے) انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ اس طرح کے معاملات اگرچہ یہ تمہارے ہاں عجیب ہیں۔
Top