Madarik-ut-Tanzil - Al-Anbiyaa : 97
وَ اقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَاِذَا هِیَ شَاخِصَةٌ اَبْصَارُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ یٰوَیْلَنَا قَدْ كُنَّا فِیْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا بَلْ كُنَّا ظٰلِمِیْنَ
وَاقْتَرَبَ : اور قریب آجائے گا الْوَعْدُ : وعدہ الْحَقُّ : سچا فَاِذَا : تو اچانک هِىَ : وہ شَاخِصَةٌ : اوپر لگی (پھٹی) رہ جائیں گی اَبْصَارُ : آنکھیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا (کافر) يٰوَيْلَنَا : ہائے ہماری شامت قَدْ كُنَّا : تحقیق ہم تھے فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مِّنْ ھٰذَا : اس سے بَلْ كُنَّا : بلکہ ہم تھے ظٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور (قیامت کا) سچا وعدہ قریب آجائے تو ناگاہ کافروں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں (اور وہ کہنے لگیں کہ) ہائے شامت ہم اس (حال) سے غفلت میں رہے بلکہ ہم (اپنے حق میں) ظالم تھے
قیامت اور اس کا منظر : 97: وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ (اور سچا وعدہ قریب ہوجائے گا) الوعدؔ سے قیامت مراد ہے۔ فائدہ : اور اذاکا جواب۔ فَاِذَا ھِیَ ہے یہ اذا مفاجات کیلئے ہے اور جزاء پر فاء کی جگہ آتا رہتا ہے جیسا کہ اس ارشاد میں : اذا ھم یقنطون ] الروم : 36 [ جب فاء بھی آگیا تو جزاء کے شرط کے ساتھ متصل ہونے میں دونوں نے تعاون کیا پس مزید تاکید ہوگئی اگر اس طرح کہا جاتا : فہی شاخصۃ یا اذاھی شاخصۃ تو تب بھی درست ہوتا۔ ھی ؔ یہ ضمیر مبہم ہے اس کی وضاحت الا بصار کر رہا ہے۔ اور اس کی تفسیر شَاخِصَۃٌ اَبْصَارُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ہے۔ کہ کافروں کی آنکھیں اوپر کو اٹھی ہونگی۔ یعنی پلکیں اونچی ہونگی اور جس مصیبت میں گرفتار ہونگے ان کی وجہ سے پلک جھپک نہ سکیں گے۔ یٰوَیْلَنَا (وہ کہیں گے ہائے کاش) یہ محذوف سے متعلق ہے تقدیر عبارت یہ ہے یقولون یاویلنا وہ کہیں گے ہائے ہماری خرابی۔ نحو : یقولون یہ الذین کفروا سے حال ہے۔ قَدْکُنَّا فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنَ ھٰذَا (کہ ہم تو اس سے غفلت میں پڑے تھے) ھٰذا سے مراد یوم ہے۔ بَلْ کُنَّا ظٰلِمِیْنَ (بلکہ ہم ہی ظالم تھے) کیونکہ ہم نے عبادت کو اس کے مقام سے ہٹا کر دوسرے مقام پر رکھ دیا۔
Top