Madarik-ut-Tanzil - Al-Hajj : 29
ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَهُمْ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ
ثُمَّ : پھر لْيَقْضُوْا : چاہیے کہ دور کریں تَفَثَهُمْ : اپنا میل کچیل وَلْيُوْفُوْا : اور پوری کریں نُذُوْرَهُمْ : اپنی نذریں وَلْيَطَّوَّفُوْا : اور طواف کریں بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : قدیم گھر
پھر چاہے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں اور خانہ قدیم (یعنی بیت اللہ) کا طواف کریں
29: ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَھُمْ (پھر وہ اپنی میل کچیل کو دور کریں) نمبر 1۔ اپنے اجسام سے میل کو دور کریں نفطو یہ نحوی نے اسی طرح کہا دوسرا قول قضاء تفث، مونچھیں کاٹنے، ناخن اتارنے، بغل کے بال لینے، زیر ناف صاف کرنے کو کہتے ہیں۔ التفث تو میل کو کہا جاتا ہے۔ اور یہاں مراد میل کے ازالہ کو پورا کرنا۔ ابن عمر، ابن عباس ؓ کا قول یہ ہے کہ قضاء و تفث تمام مناسک حج کی ادائیگی کو کہتے ہیں۔ وَلْیُوْفُوْانُذُوْرَھُمْ (اور وہ اپنی نذور کو پورا کریں) یعنی حج کے واجبات۔ اور اہل عرب پر اس شخص کو جو اپنے فریضہ سے فارغ ہو کہتے ہیں وفّٰی بنذرہ خواہ اس نے کوئی نذر نہ مانی ہو۔ نمبر 2۔ یا نیکی کے وہ اعمال جن کی اعمال حج کے سلسلہ میں وہ نذرمان لیتے ہیں۔ قراءت : ابوبکر نے ولْیوفّوا لام کے سکون اور تشدیدِ فائؔ کے ساتھ پڑھا۔ وَلْیَطَّوَّفُوْا (اور وہ طواف کریں) طواف سے طواف زیارت مراد ہے جو کہ حج کا رکن ہے اور اس کی دائیگی سے تکمیل تحلل من الاحرام ہوجاتی ہے۔ لیقضوا، لیوفوا، لیطوفوا میں قراءت یہ ہے کہ ابن عامر اور ابو عمرو، ابن کثیر، نافع وغیرہ نے تینوں لامات مکسور پڑھی ہیں البتہ دیگر قراء نے تینوں ساکنہ پڑھی ہیں۔ بیت اللہ العتیق : بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ (پر انے گھر کا) عتیق قدیم کے معنی میں آتا ہے۔ کیونکہ فرمایا گیا ان اول بیت وضع للناس ] آل عمران : 96 [ آدم (علیہ السلام) نے اس کی تعمیر کی پھر تجدید تعمیر ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں کرائی گئی۔ نمبر 2۔ عتیق کا معنی معزز۔ اسی سے عتاقؔ الخیل جو ان گھوڑوں کو بولتے ہیں جو شاندار عمدہ ہوں اور عتاقؔ الرقیق ان غلاموں کو کہتے ہیں جو غلامی سے نکل کر حریت کی عزت پالیں۔ نمبر 3۔ یہ غرق سے بچا رہا کیونکہ زمانہ طوفان میں اس کو اٹھالیا گیا۔ نمبر 4۔ ظالموں کے ہاتھوں سے آزاد کیا ہوا ہے۔ کتنے ہی ظالم اس کو گرانے کیلئے چلے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت فرمائی۔ نمبر 5۔ حکمرانوں کے ہاتھوں سے آزاد ہے۔ کوئی اس کا مالک نہیں ہوا۔ یہ زمین والوں کیلئے طواف گاہ ہے جیسا کہ عرش اہل سماء کیلئے مطاف کی جگہ ہے۔ طالب صادق کو جب خوشی ابھارتی اور طلب کی کششیں اپنی طرف کھینچتی ہیں تو وہ زمینی مسافتوں کو مرحلوں میں طے کرتا اور خطرناک راستوں کو عبور کرتا ہوا چلا آتا ہے۔ جونہی وہ بیت اللہ کو آنکھوں کے سامنے پاتا ہے اس کا شوق ہدی خوان بن جاتا ہے اور استلام حجر سے بھی اس کے دل کو تسلی نہیں ملتی بلکہ وہ چاہتا ہے۔ چوں برسی کوئے دلبر ٭ بسپار جان مضطر کہ مبادا بار دیگر ٭ حاصل نہ شودایں تمنا جان کو قابو میں نہ پاکر دیوانہ وار وہ اس کے گرد چکر لگاتا ہے۔ جیسا پیاسا پرندہ منڈلاتا ہے۔ طواف زیارت حج کے تین فرائض میں سے آخری فریضہ ہے۔ اوّل احرام : یہ حقیقت میں معاہدہ التزام ہے۔ اور اسلام کے کڑے کو مضبوطی سے تھامنے کا نام ہے۔ تاکہ حج کے ممنوعات کا ارتکاب کر کے اس کا انکار نہ کر بیٹھے اور اس کا عقد مفسدات و منافی کے ساتھ محض نام کا عقد نہ رہ جائے۔ جیسا کہ معاہدہ اسلام کثرت گناہ سے ٹوٹتا نہیں۔ اور ایک توبہ سے ایک ہزار گناہ اٹھ جاتے ہیں۔ دوسرا وقوف عرفات : یہ در حقیقت گڑ گڑانے اور رونے دھونے کا پہلا بہانہ ہے اور اپنے اعمال کے مراتب اور احوال کے مشاہدات پر بھروسہ سے سچی علیحدگی اور دست برداری اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی پر بھروسہ کا نام ہے۔
Top