Madarik-ut-Tanzil - Al-Hajj : 30
ذٰلِكَ١ۗ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١ؕ وَ اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو يُّعَظِّمْ : تعطیم کرے حُرُمٰتِ اللّٰهِ : شعائر اللہ (اللہ کی نشانیاں) فَهُوَ : پس وہ خَيْرٌ : بہتر لَّهٗ : اس کے لیے عِنْدَ رَبِّهٖ : اس کے رب کے نزدیک وَاُحِلَّتْ : اور حلال قرار دئیے گئے لَكُمُ : تمہارے لیے الْاَنْعَامُ : مویشی اِلَّا : سوا مَا يُتْلٰى : جو پڑھ دئیے گئے عَلَيْكُمْ : تم پر۔ تم کو فَاجْتَنِبُوا : پس تم بچو الرِّجْسَ : گندگی مِنَ : سے الْاَوْثَانِ : بت (جمع) وَاجْتَنِبُوْا : اور بچو قَوْلَ : بات الزُّوْرِ : جھوٹی
یہ (ہمارا حکم ہے) اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ پروردگار کے نزدیک اسکے حق میں بہتر ہے اور تمہارے لئے مویشی حلال کردیے گئے ہیں سوا انکے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں تو بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو
تعظیم حرمات : 30: ذٰلِکَ : یہ مبتدأ محذوف کی خبر ہے۔ اے الامر ذلک یا تقدیر عبارت یہ ہے لیفعلوا ذلک۔ وَمَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰہِ (جو شخص اللہ تعالیٰ کے محترم احکام کی وقعت کرے گا) الحرمۃؔ جس کی بےعزتی کسی طور پر حلال نہ ہو۔ وہ تمام احکام حج وغیرہ جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دے رکھا وہ تمام اسی درجہ میں ہیں۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ تمام احکام تکلیفیہ مراد لئے جائیں۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ فقط احکام حج مراد ہوں۔ ایک قول یہ ہے حرمات اللہ سے بیت اللہ شریف، مزدلفہ، مشعر حرام، مکہ مکرمہ اور مسجد حرام مراد ہے۔ فَھُوَ (پس وہ) تعظیم۔ خَیْرٌ لَّہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ (بہت بہتر ہے اس کے رب کے ہاں) اور تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ جانتا ہو کہ ان کی رعایت لازم ہے۔ اور ان کی حفاظت اور نگہبانی کرنا ضروری ہے۔ وَاُحِلَّتْ لَکُمُ الْاَنْعَامُ (تمہارے لئے جو پائے حلال کئے گے) یعنی ان کا کھانا اِلَّا مَایُتْلٰی عَلَیْکُمْ (مگر وہ جو تم پر پڑھا جائے گا) یہ آیت تحریم مراد ہے حرمت علیکم المیتۃ ] المائدہ : 3 [ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تمام چوپائوں کو حلال کیا سوائے ان کے جن کے متعلق اس نے اپنی کتاب میں وضاحت کردی۔ پس تم اس کے حدود کا لحاظ کرو۔ اور اس کی حلال کردہ اشیاء میں سے کسی چیز کو حرام مت کرو۔ جیسا کہ بعض لوگوں نے بحیرہ، سائبہ وغیرہ حرام رکھے تھے اور جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ان کو حلال مت کرو جیسا کہ بعض مردار اور موقوذہ وغیرہ کھالیتے تھے۔ جب اپنی حرمات کی تعظیم پر آمادہ کیا تو اس کے مابعد بتوں کی گندگی سے پرہیز کرنے اور جھوٹ سے بچنے کی تعلیم دی۔ چناچہ فرمایا : فَاجْتَنِبُوْا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ (تم بتوں کی گندگی سے پرہیز کرو اور جھوٹی بات سے پرہیز کرو) کیونکہ یہ عظیم ترین حرمات میں سے ہے اور ان میں سب سے بڑھ کر ہے۔ نحو : من الاوثان یہ الرجس کا بیان ہے کیونکہ الرجس مبہم ہے اور اشیاء کو بھی شامل ہے گویا اس طرح فرمایا فاجتنبو الذی ھوالا و ثان۔ تم اس گندگی سے بچو جو کہ خودبت ہیں۔ اوثانؔ کو رِجْس بطور تشبیہ کے کہا یعنی تمہارے طبائع میں پلیدی سے نفرت تو پائی جاتی ہے پس تم پر لازم ہے کہ تم ان سے بھی نفرت کرو ( کیونکہ وہ باطنی پلیدی ہے جو ظاہری پلیدی سے بڑھ کر ہے) فائدہ : یہاں شرک اور جھوٹ کو ایک صف میں رکھ کر پیش کیا۔ اس سے کذب و بہتان مراد ہے یا جھوٹی گواہی۔ اور یہ الزور کا لفظ زار یزور زورًا سے لیا گیا ہے جس کا معنی انحراف آتا ہے کیونکہ شرک بھی باب زور سے ہے کیونکہ مشرک کا خیال ہے کہ بت اس کی عبادت کا مستحق ہے اور یہ حق سے انحراف ہے۔
Top