Madarik-ut-Tanzil - Al-Hajj : 55
وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْهُ حَتّٰى تَاْتِیَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً اَوْ یَاْتِیَهُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ
وَلَا يَزَالُ : اور ہمیشہ رہیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا فِيْ : میں مِرْيَةٍ : شک مِّنْهُ : اس سے حَتّٰى : یہاں تک تَاْتِيَهُمُ : آئے ان پر السَّاعَةُ : قیامت بَغْتَةً : اچانک اَوْ يَاْتِيَهُمْ : یا آجائے ان پر عَذَابُ : عذاب يَوْمٍ عَقِيْمٍ : منحوس دن
اور کافر لوگ ہمیشہ اس سے شک میں رہیں گے یہاں تک کہ قیامت ان پر ناگہاں آجائے یا ایک نامبارک دن کا عذاب ان پر آواقع ہو
کفار کی ضدبازی : 55: وَلَا یَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ مِرْیَۃٍ (اور کافر ہمیشہ شک میں پڑے رہیں گے) مِّنْہُ (اس کے متعلق) قرآن مجید کے متعلق یا صراط مستقیم کے متعلق حَتّٰی تَاْتِیَھُمُ السَّاعَۃُ بَغْتَۃً ( یہاں تک کہ قیامت ان کے پاس اچانک آن پہنچے۔ ) اور اَوْیَاتِیھُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ یا ان پر کسی بےبرکت دن کا عذاب اتر پڑے) یعنی بدر کے دن، وہ عقیم اس لحاظ سے کہ کافروں کو اس میں کوئی کشادگی میسر نہیں ہوئی یا راحت نہیں پہنچی جیسا کہ الریح العقیمؔ سے کوئی خیر فصلوں اور انسان کو نہیں ملتی۔ نمبر 3۔ عقیم کا معنی سخت دن تھا۔ اس میں رحمت نہ تھی۔ نمبر 4۔ معاملے کی شدت کی وجہ سے وہ دن بےمثل تھا۔ چونکہ ملائکہ بھی قتال میں شریک تھے۔ قول ضحاک (رح) : اس سے قیامت کا دن مراد ہے اور السَّاعۃ سے اس صورت میں مقدمات قیامت مراد لیے جائیں گے۔
Top