Madarik-ut-Tanzil - Al-Muminoon : 2
الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ
الَّذِيْنَ : اور جو هُمْ : وہ فِيْ صَلَاتِهِمْ : اپنی نمازوں میں خٰشِعُوْنَ : خشوع (عاجزی) کرنے والے
جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں
2: الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خَاشِعُوْنَ (تحقیق فلاح پائی ان مؤمنون نے جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں) ایمان والوں کی متوقع بشارت : قَدْاَفْلَحَ میں قد لمَّا کی نقیض ہے۔ یہ متوقع کو ثابت کرتا ہے جبکہ لمَّا اس کی نفی کرتا ہے مومن اس قسم کی بشارات کی توقع رکھتے تھے۔ اس میں ان کے لئے کامیابی کے ثابت ہونے کی خبر دی گئی ہے۔ اس لئے جس بات کی وہ توقع رکھتے تھے اسی کے ثبوت پر دلالت کے انداز سے خطاب کیا گیا۔ الفلاحؔ مطلوب کو پالینا اور خطرات سے بچ جانا۔ یعنی انہوں نے اپنے مطالبے کو پالیا اور جن چیزوں سے وہ خائف تھے ان سے نجات پالی۔ الایمانؔ لغت میں تصدیق کو کہتے ہیں اور المؤمن تصدیق کرنے والا۔ شرع میں ایمان : ہر وہ شخص جو شہادتین کا زبان سے اس حالت میں اقرار کرلے کہ اس کا دل اس کی زبان سے موافقت کرنے والا ہو۔ وہ مومن کہلاتا ہے۔ قول رسول اللہ ﷺ : اللہ تعالیٰ نے جنت کو پیدا کر کے فرمایا بات کرو تو جنت نے کہا : قد افلح المؤمنون، تین مرتبہ کہا مجھے ہر بخیل دکھلاوے والے پر حرام کردیا گیا ہے ] ابونعیم : 17[ کیونکہ اس نے عبادات بدنیہ کو ریاکاری سے باطل کردیا اور عبادت مالیہ تو پہلے ہی اس کی موجود نہیں ہے۔ 2: الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خَاشِعُوْنَ ، خاشعون کا معنی دل سے ڈرنے والے ہیں اور ان کے جو ارح پر سکون ہیں۔ دوسرا قول خشوع فی الصلاۃ اور وہ یہ ہے کہ اپنی توجہ کو اس کے لئے جمع کرنا اور اس کے ماسوا سے اعراض کرنا اور نگاہ کا جائے نماز سے آگے نہ بڑھنا دائیں بائیں متوجہ نہ ہونا۔ نہ کپڑوں سے کھیلنا نہ کپڑا لٹکانا۔ نہ انگلیاں مٹکانا۔ اور نہ کنکریوں کو الٹنا پلٹنا وغیر ذلک۔ قول ابو الدرد اء ؓ : زبان کے اخلاص، مقام کی تعظیم اور کامل یقین اور مکمل یکسوئی کو خشوع کہا جاتا ہے۔ خشوع نگاہ و آواز میں تواضع اور خضوع اعضائے بدن میں سکون۔ اضافت ِصلاۃ : نماز کی اضافت نمازیوں کی طرف کی گئی مصلی لہ کی طرف نہیں کی گئی۔ کیونکہ نمازی کو صرف اس سے فائدہ پہنچتا ہے اور وہ اس کا ذخیرہ اور زاد سفر ہے باقی ذات باری تعالیٰ جس کے لیے نماز پڑھی جار ہی ہے۔ وہ اس سے غنی و بےنیاز ہے۔
Top