Madarik-ut-Tanzil - Al-Muminoon : 20
وَ شَجَرَةً تَخْرُجُ مِنْ طُوْرِ سَیْنَآءَ تَنْۢبُتُ بِالدُّهْنِ وَ صِبْغٍ لِّلْاٰكِلِیْنَ
وَشَجَرَةً : اور درخت تَخْرُجُ : نکلتا ہے مِنْ : سے طُوْرِ سَيْنَآءَ : طور سینا تَنْۢبُتُ : گتا ہے بِالدُّهْنِ : تیل کے ساتھ لیے وَصِبْغٍ : اور سالن لِّلْاٰكِلِيْنَ : کھانے والوں کے لیے
اور وہ درخت بھی (ہم ہی نے پیدا کیا) جو طور سینا میں پیدا ہوتا ہے (یعنی زیتون کا درخت کہ) کھانے والوں کے لئے روغن اور سالن لئے ہوئے اگتا ہے
20: وَشَجَرۃً (اور ہم نے ایک درخت پیدا کیا) اس کا عطف جناتٍ پر ہے اور وہ زیتون کا درخت ہے۔ تَخْرُجُ مِنْ طُوْرِ سَیْنَآ ءَ (جو طور سیناء میں پیدا ہوتا ہے) نحو : طور سیناء اور طور سینین میں یا تو طور کی اضافت بقعہ کی طرف ہو جس کا نام سیناء اور سینون ہو یا نمبر 2۔ پہاڑکا نام جو مضاف، مضاف الیہ سے مرکب ہو جیسے امرءٔ القیس۔ یہ فلسطین کا ایک پہاڑ ہے۔ اور سینائؔ ہرحال میں غیر منصرف ہے اس کا سین مکسور ہے۔ جیسا حجازی اور ابو عمرو نے سیناء پڑھا ہے اور دو وجہ تعریف اور عجمہ پائی جاتی ہیں۔ یا یہ سَیْنَاء جیسا دیگر قراء کی قراءت ہے کیونکہ الف تانیث ہے جیسے صَحْراء یہ دو سبب کے قائم مقام ہے۔ تَنچْبُتُ بِالدُّھْنِ (جو اگتا ہے تیل لیے ہوئے) زجاج کا قول : باء حال کیلئے لائے۔ ای تنبت و معھا الدھن گویا بائؔ مع کے معنی میں ہے۔ وہ اس حال میں اگتا ہے کہ اس کے ساتھ تیل ہوتا ہے۔ قراءت : تُنْبتُ مکی اور ابو عمرونے پڑھا خواہ اس وجہ سے کہ اَنْبَتَ بمعنی نَبَتَ آیا ہے۔ جیسا کہتے ہیں حتی اذا انبت البقل ای نبت البقل : سبزہ اُگا۔ یا اس کا مفعول محذوف ہے ای تنبت زیتونھا و فیہ الدھن۔ وہ اپنے زیتون کو اگاتا ہے جس میں تیل ہوتا ہے۔ وَصِبْغٍ لِّلْاٰکِلِیْنَ (اور کھانے والوں کیلئے سالن) یعنی وہ اس میں روٹی ڈبو کر یا چرب کر کے کھاتے ہیں۔ قول مقاتل : اللہ تعالیٰ نے اس میں سالن اور تیل رکھ دیا۔ الادامؔ الزیتون کا اچار الدُّھن تیل۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ زمین پر پہلا درخت تھا جو طوفان کے بعد اُگا۔ وجہ تخصیص : ان تین اقسام کو خاص اس لئے کیا کیونکہ یہ معزز اور افضل اور کثیر المنافع درخت ہے۔
Top