Madarik-ut-Tanzil - Al-Muminoon : 50
وَ جَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّهٗۤ اٰیَةً وَّ اٰوَیْنٰهُمَاۤ اِلٰى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیْنٍ۠   ۧ
وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا ابْنَ مَرْيَمَ : مریم کے بیٹے (عیسی) کو وَاُمَّهٗٓ : اور ان کی ماں اٰيَةً : ایک نشانی وَّاٰوَيْنٰهُمَآ : اور ہم نے انہیں ٹھکانہ دیا اِلٰى : طرف رَبْوَةٍ : ایک بلند ٹیلہ ذَاتِ قَرَارٍ : ٹھہرنے کا مقام وَّمَعِيْنٍ : اور جاری پانی
اور مریم کے بیٹے (عیسی) اور ان کی ماں کو (اپنی) نشانی بنایا تھا اور ان کو ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور جہاں (نتھرا ہوا) پانی جاری تھا پناہ دی تھی
مریم اور ابن مریم ( علیہ السلام) کا تذکرہ اور ان کا ٹھکانہ : 50: وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّہٗ ٰایَۃً (اور ہم نے ابن مریم اور ان کی ماں کو نشانی بنایا) جو ہماری قدرت تامہ پر دلالت کرنے والی ہے کہ ہم جو چاہتے ہیں کرتے ہیں کیونکہ وہ بلانطفہ پیدا کئے گئے۔ اٰیۃٌ کا لفظ واحد لایا گیا کیونکہ اعجوبہ دونوں میں ایک ہی ہے۔ یا مراد یہ ہے : وجعلنا ابن مریم ایۃً ومہٗ ایۃً اول کو حذف کردیا کیونکہ ثانیہ کی دلالت اس پر موجود ہے۔ وَّ ٰاوَیْنٰھُمَآ (اور ہم نے ان کو پناہ دی) ان کو ٹھکانہ دیا۔ اِلٰی رَبْوَۃٍ (ایک بلند زمین پر) ۔ قراءت : شامی و عاصم نے رَبوۃٍ پڑھا ہے۔ اور دیگرقراء نے رُبوۃٍ پڑھا۔ ربوۃ بلند زمین، نمبر 1۔ وہ بیت المقدس ہے نمبر 2 دمشق نمبر 3۔ رملہ یا نمبر 4۔ مصر۔ ذَاتِ قَرَارٍ (قرار والی) ہموار زمین جس پر بسنے والے ٹھہر سکیں۔ نمبر 2۔ پانی اور پھلوں والی یعنی پھلوں کی وجہ سے لوگ وہاں ٹھہرتے ہیں۔ وَّ مَعِیْنٍ (اور جاری چشمے) ایسا پانی جو سطح زمین پر چلنے والا ہو۔ صرف : یہ مفعول کا صیغہ ہے۔ یعنی جس کے جاری ہونے کا آنکھ ادراک کرے ظاہر ہونے کی وجہ سے۔ یہ عانہ سے لیا گیا جبکہ آنکھ سے اس کا معائنہ کرے۔ نمبر 2۔ یہ فعیل کا وزن ہے کیونکہ یہ اپنے چلنے کی وجہ اور ظاہر ہونے کی بناء پر فائدہ پہنچانے والا ہے۔ اس لئے یہ الماعونؔ سے ماخوذ ہوگا اور وہ منفعت کو کہتے ہیں۔ یا مَعَنَ سے ہے جس کا معنی جاری ہونا ہے اس صورت میں میم اصلیہ ہے اور یہ صحیح ہے۔
Top