Madarik-ut-Tanzil - Al-Muminoon : 51
یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا١ؕ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الرُّسُلُ : رسول (جمع) كُلُوْا : کھاؤ مِنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَاعْمَلُوْا : اور عمل کرو صَالِحًا : نیک اِنِّىْ : بیشک میں بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے پیغمبرو ! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو جو عمل تم کرتے ہو میں ان سے واقف ہوں
ہر رسول کو خطاب : 51: یٰٓاَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ (اے رسولو حلال چیزیں کھائو) یہ نداء اور خطاب دونوں اپنے ظاہر پر نہیں ہیں کیونکہ انبیاء (علیہ السلام) کے زمانہائے نبوت مختلف ہیں۔ معنی اس کا یہ ہے کہ ہر رسول کو اس کے زمانہ میں یہ بات کہی گئی اور اس کی اس نے وصیت و نصیحت فرمائی تاکہ سامع معتقد ہو کہ یہ ایسا حکم ہے جس کی تمام انبیاء کو اطلاع دی گئی اور انہوں نے اس کی وصیت کی پس ایسی بات قبولیت کے خاص طور پر لائق و مناسب ہے اور اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ نمبر 2۔ یا یہ حضرت محمد ﷺ کو خطاب ہے کیونکہ آپ اپنے زمانہ میں تمام کے قائم مقام ہیں اور قیامت تک نبوت آپ کی ہی ہے۔ اور آپ ہی غنائم کو استعمال میں لانے والے ہیں۔ جو پاکیزہ ترین مال ہے۔ یا نمبر 3۔ یا متصل آیت میں عیٰسی (علیہ السلام) کا ذکر ہے۔ وہی مراد ہیں اور وہ والدہ کے سوت کا تنے کی کمائی پر گزارہ کرتے اور کسب یدیہ پاکیزہ روزی ہے۔ اور طیبات سے مراد ہے جو حلال ہو۔ اور امر تکلیف کیلئے ہے یعنی مکلف ہونے کو ثابت کرتا ہے کہ حلال جو میسر ہو کھاؤ۔ نمبر 4۔ عمدہ اور لذیذ چیزوں کو طیبات سے مراد لیا جائے تو امر اباحت اور سہولت کیلئے ہے کہ رہبا نیت میں مزید چیزیں استعمال کی جاسکتی ہیں۔ بقدرہمت مگر انہی میں مشغولی نہ ہو۔ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا (اور تم نیک اعمال کرو) جو شریعت کے موافق ہوں۔ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ (بیشک میں تمہارے اعمال کو جانتا ہوں) پس تمہارے اعمال پر بدلہ دونگا۔
Top