Madarik-ut-Tanzil - Al-Muminoon : 67
مُسْتَكْبِرِیْنَ١ۖۗ بِهٖ سٰمِرًا تَهْجُرُوْنَ
مُسْتَكْبِرِيْنَ : تکبر کرتے ہوئے بِهٖ : اس کے ساتھ سٰمِرًا : افسانہ کوئی کرتے ہوئے تَهْجُرُوْنَ : بیہودہ بکواس کرتے ہوئے
ان سے سرکشی کرتے، کہانیوں میں مشغول ہوتے اور بےہودہ بکواس کرتے تھے
67: مُسْتَکْبِرِیْنَ (تکبر کرتے ہوئے) مسلمان پر بڑھائی ظاہر کرتے ہوئے۔ نحو : یہ تنکصون سے حال ہے۔ بِہٖ (بیت اللہ پر یا حرم پر۔ ) کفار یہ کہا کرتے تھے کہ ہم اہل حرم ہیں۔ اس لئے ہم پر کوئی غالب نہ آئے گا۔ یہ مفہوم اس قول کے مطابق ہے۔ جنہوں نے ضمیر کا مرجع بیت کو قرار دیکر استکبار بالبیت مراد لیا۔ نمبر 2۔ ہٖ کا مرجع آیات قرار دیا۔ انہوں نے آیات کو کتاب کے معنی میں لیا اور استکبار بالقرآن کا مطلب تکذیب ہے۔ نحو : مستکبرین میں ضمناً مکذبینؔ کا معنی پایا جاتا ہے اسی لئے اس کے متعدی بنانے کیلئے کذب فعل والاحرف تعدیہ استعمال کرلیا گیا ہے۔ نمبر 3۔ یاؔ سامرًا سے متعلق ہے : ای تسمرون بذکر القرآن و بالطعن فیہ سٰمِرًا تَہْجُرُوْنَ (مشغلہ بناتے ہوئے) وہ بیت اللہ کے گرد رات قصہ گوئی کرتے اور ان کی عمومی قصہ گوئی قرآن کے متعلق ہوتی وہ کبھی قصہ کہانی کہتے اور کبھی سحر و شعر کا نام دیتے۔ سامرؔ کا لفظ حاضر کی طرح واحد و جمع پر اطلاق کیا جاتا ہے۔ قراءت : اس کو سمّاراً بھی پڑھا گیا ہے۔ نمبر 4۔ یاتھجرون سے متعلق ہے اور یہ الھجر سے مشتق ہے جس کا معنی ہذیانؔ آتا ہے۔ (ہجر کا معنی کٹ جانا، کتراجانا، بیہودہ بکواس کرنا آتا ہے) قراءت : نافع نے تھجِرون پڑھا ہے اس صورت میں یہ اھجر فی منطقہ ای افحش اس نے اپنی گفتگو میں فحش طریق اختیار کیا۔
Top