Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 51
تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَاۙ
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا الَّذِيْ : وہ جو۔ جس نَزَّلَ الْفُرْقَانَ : نازل کیا فرق کرنیوالی کتاب (قرآن) عَلٰي عَبْدِهٖ : اپنے بندہ پر لِيَكُوْنَ : تاکہ وہ ہو لِلْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کے لیے نَذِيْرَۨا : ڈرانے والا
وہ (خدائے عزوجل) بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ اہل عالم کو ہدایت کرے
تبارک اور فرقان کا معنی : 1: تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ (بڑی خیر والا ہے وہ جس نے قرآن کو اپنے بندے پر تھوڑا تھوڑا) عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا (اتار اتا کہ وہ سارے جہانوں کیلئے ڈرانے والا ہو) ۔ تبارکیہ البرکۃ سے تفاعل کے وزن پر ہے۔ اور البرکتؔ خیر کثیر اور اس کے اضافہ کو کہتے ہیں۔ تبارک اللہ ؔ کا معنی اس کی بھلائی بڑھنے والی ہے اور کثیر ہونے والی ہے۔ نمبر 2۔ ہر چیز سے بڑھنے والی ہے اور ہر چیز سے اپنی صفات و افعال میں بلند ہے۔ یہ تعظیمی کلمہ ہے جو اللہ وحدہ لا شریک کیلئے ہی استعمال ہوتا ہے۔ اس کی مجرد حَسِبَ باب سے آتی ہے ( البتہ مزید کی گردان نہیں آتی کیونکہ یہ صفت باری کیلئے خاص ہے) الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ (وہ جس نے قرآن مجید کو اتارا) الفرقان مصدر ہے جو دو چیزوں کے مابین جدائی کیلئے آتا ہے قرآن کو فرقان کہنے کی وجہ یہ ہے کیونکہ قرآن حق و باطل میں جدائی ڈالتا ہے حلال و حرام کو الگ کرتا ہے نمبر 2۔ اسلئے کہ اکٹھا نازل نہیں ہوا۔ بلکہ اترنے میں جداجدا اور تھوڑا تھوڑا نازل ہوا۔ جیسا اس آیت میں مذکور ہے : وقرء انًافرقنا ہُ لتقرأ علی الناس علی مکث ونزلنٰہ تنزیلا ] الاسراء : 106[ عَلٰی عَبْدِہٖ (اپنے بندے پر) یعنی محمد ﷺ پر لِیَکُوْنَ (تاکہ ہو وہ) بندہ یا فرقان۔ لِلْعٰلَمِیْنَ (جہان والوں کیلئے) جنات و انس کیلئے۔ رسالت کا عام ہونا آپ کی خصوصیات میں سے ہے۔ نَذِیْرًا (ڈرانے والا) نذیر منذر کے معنی میں ہے یا نذیر بمعنی انذار ہے جیسا نکیر بمعنی انکار ہے اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں یہی معنی ہے : فکیف کان عذابی و نذرٍ ] القمر : 16[
Top