Madarik-ut-Tanzil - Al-Furqaan : 23
وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا
وَقَدِمْنَآ : اور ہم آئے (متوجہ ہونگے) اِلٰى : طرف مَا عَمِلُوْا : جو انہوں نے کیے مِنْ عَمَلٍ : کوئی کام فَجَعَلْنٰهُ : تو ہم کردینگے نہیں هَبَآءً : غبار مَّنْثُوْرًا : بکھرا ہوا (پراگندہ)
اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو انکو اڑتی خاک کردیں گے
بادشاہ کی مخالفت کی تمثیل : 23: وَقَدِمْنَآ اِلٰی مَا عمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰہُ ھَبَآ ئً مَنْشُوْرًا (اور ہم ان کے ان اعمال کی طرف جو وہ پہلے کرچکے تھے۔ متوجہ ہونگے پس ان کو بکھرا ہوا غبار بنادیں گے) یہ آیت ھباءؔ کی صفت ہے۔ یہاں قدوم کا کوئی مطلب نہیں لیکن ان لوگوں کے احوال اور اعمال کو جو وہ کفر کی حالت میں بھی انجام دیتے رہے مثلاً صلہ رحمی، مظلوم کی اعانت، میزبانی وغیرہ کو اس آدمی کی حالت کے ساتھ بطور تمثیل و تشبیہ بیان کیا جس نے اپنے بادشاہ کی مخالفت کی اور اس کا نافرمان ہوگیا۔ پس بادشاہ نے اس کے حمایتوں اور اس کے ہاتھوں میں جتنا کچھ تھا سب کا قصد کر کے سب کچھ کو تہس نہس کردیا اور ان میں سے کسی چیز کا نشان تک باقی نہ چھوڑا ہو۔ الھباءؔ۔ سورج کی روشنی کے ساتھ روشندان میں اڑتے ذرات جو نظر آتے ہیں بکھرے غبار سے تشبیہ یہ استعارہ ہے کہ ان کے اعمال اس طرح ہوگئے کہ نہ وہ اجتماع کو قبول کرتے ہیں اور نہ انتفاع کو اگلی آیت میں اہل جنت کو اہل نار پر حاصل ہونے والی فضیلت کا ذکر فرمایا۔
Top