Madarik-ut-Tanzil - Al-Furqaan : 29
لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْ١ؕ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا
لَقَدْ اَضَلَّنِيْ : البتہ اس نے مجھے بہکایا عَنِ الذِّكْرِ : نصیحت سے بَعْدَ اِذْ : اس کے بعد جب جَآءَنِيْ : میرے پاس پہنچ گئی وَكَانَ : اور ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان لِلْاِنْسَانِ : انسان کو خَذُوْلًا : کھلا چھوڑ جانے والا
اس نے مجھ کو (کتاب) نصیحت کے میرے پاس آنے کے بعد بہکا دیا اور شیطان انسان کو وقت پر دغا دینے والا ہے
شیطان کی گمراہی : 29: لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ (اس نے مجھے اللہ تعالیٰ کی یاد سے گمراہ کیا) الذکر سے ذکر اللہ مراد ہے۔ نمبر 2۔ قرآن مراد ہے۔ نمبر 3۔ ایمان مراد ہے۔ بَعْدَ اِذْ جَآ ئَ نِیْ (اس کے بعد کہ وہ میرے ہاں آچکا) اللہ تعالیٰ کی طرف سے وَکَانَ الشَّیْطٰنُ (اور شیطان ہے) اس کا خلیل۔ اس کو شیطان اس لئے کہا کیونکہ اس نے اس کو اسی طرح گمراہ کیا جیسا شیطان گمراہ کرتا ہے۔ نمبر 2۔ ابلیس لعین مراد ہے کیونکہ اسی نے گمراہ کی دوستی پر اسے برانگیختہ کیا اور رسول (علیہ السلام) کی مخالفت پر ابھارا۔ لِلْاِنْسَانِ (انسان کیلئے) جو اس کا مطیع بن جاتا ہے۔ خَذُوْلًا (یہ رسوا کرنے والا) یہ خذلان سے مبالغہ ہے۔ اس کی عادت یہ ہے کہ جو اس سے دوستی اختیار کرتا بالآخر گمراہ کر کے اس کو چھوڑ دیتا ہے۔ نمبر 1۔ یہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی حکایت ہے۔ نمبر 2۔ ظالم کے کلام کی حکایت ہے۔
Top