Madarik-ut-Tanzil - Ash-Shu'araa : 10
وَ اِذْ نَادٰى رَبُّكَ مُوْسٰۤى اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب نَادٰي : پکارا (فرمایا) رَبُّكَ : تمہارا رب مُوْسٰٓي : موسیٰ اَنِ ائْتِ : کہ تو جا الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم لوگ
اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا کہ ظالم لوگوں کے پاس جاؤ
10، 11: وَاِذْ نَادٰی (اور اس وقت کو یاد کرو جب پکارا) نحو : اذؔ یہ اذکر فعل محذوف کا مفعول ہے ای واذکر اذ نادیؔ (پکارنا ‘ بتلانا) ۔ رَبُّکَ مُوْسٰٓی اَنِ ائْتِ (تیرے رب نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو کہ تم جائو) ۔ نحو : یہاں انؔ ای کے معنی میں ہے۔ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ (ظالم قوم کے پاس) اپنے نفوس پر کفر کے سبب ظلم کرنے والے اور بنی اسرائیل پر غلام بنانے کی وجہ سے ظلم کرنے والے اور اسی طرح ان کے بچوں کو ظلم کے طور پر قتل کر کے ان پر ظلم کی دستاویز لکھ دی۔ قَوْمَ فِرْعَوْنَ القوم الظالمین کا عطف بیان ہے گویا قوم ظالمین کا معنی اور ترجمہ ہی قوم فرعون ہے اور گویا دو عبارتیں یکے بعد دیگرے ایک ہی بات کو ادا کر رہی ہیں۔ اَلَا یَتَّقُوْنَ (کیا وہ ہمارے غضب سے نہیں ڈرتے) یعنی ان کے ہاں زاجر بن کر جائیں۔ ان کے ڈرنے کا وقت قریب آچکا۔ حو : الاؔ کا کلمہ یہ برانگیختہ کرنے کیلئے آتا ہے نمبر 2۔ یہ الظالمین کی ضمیر سے حال ہو یعنی وہ ظلم کرتے ہیں مگر اس میں اللہ تعالیٰ اور اس کی سزا سے ذرا نہیں ڈرتے ہمزہ انکار کو حال پر داخل کردیا گیا۔
Top