Madarik-ut-Tanzil - Ash-Shu'araa : 12
قَالَ رَبِّ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّكَذِّبُوْنِؕ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْٓ اَخَافُ : بیشک میں ڈرتا ہوں اَنْ : کہ يُّكَذِّبُوْنِ : وہ مجھے جھٹلائیں گے
انہوں نے کہا کہ میرے پروردگار میں ڈرتا ہوں کہ یہ مجھے جھوٹا سمجھیں
خطرئہ تکذیب : 12، 13: قَالَ رَبِّ اِنِّیْ اَخَافُ (موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے میرے رب مجھے اندیشہ ہے) خوف ؔ مستقبل میں پیش آنے والے معاملے پر غم۔ اَنْ یُّکَذِّبُوْنِ (کہ وہ مجھے جھٹلائیں گے) وَیَضِیْقُ صَدْرِی (اور میرا سینہ تنگ ہوگا) ان کے مجھے جھٹلانے کی وجہ سے۔ یہ جملہ مستانفہ ہے نمبر 2۔ یا اخاف پر عطف ہے۔ وَلَا یَنْطَلِقُ لِسَانِیْ (اور میری زبان نہیں چلے گی) اس پر کہ ان کے غلط کام دیکھ کر غیرت مجھ پر غالب آئے گی۔ اور میں ان کا جھگڑا سنوں گا تو میری زبان نہ چلے گی۔ نمبر 2۔ ان دونوں کو یعقوب نے نصب سے پڑھا اور اس کا عطف یکذبون پر ڈالا اس صورت میں خوف ان تینوں سے متعلق ہے۔ نمبر 3۔ اور اگر رفع مانیں تو اس صورت میں خوف تکذیب سے متعلق ہے۔ فَاَرْسِلْ اِلٰی ھٰرُوْنَ (پس ہارون کے پاس (وحی) بھیج دے) یعنی جبرئیل (علیہ السلام) کو ان کی طرف بھیج کر ان کو پیغمبربنا۔ تاکہ پیغام رسالت میں وہ میری اعانت کریں۔ حضرت ہارون اس وقت مصر میں تھے جب موسیٰ (علیہ السلام) کو شام میں نبوت عنایت کی گئی۔ یہ التماس موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے تعمیل حکم میں ٹال مٹول نہ تھی۔ بلکہ اپنے ساتھ ملانے اور تبلیغ رسالت میں معاونت کی غرض سے التماس کی۔ معاملے کو چلانے کیلئے معین کا مطالبہ عذر سے شروع کیا اور معاون کی طلب قبولیت کی تو کھلی دلیل نہ کہ ٹال مٹول کی۔
Top