Madarik-ut-Tanzil - Ash-Shu'araa : 197
اَوَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ اٰیَةً اَنْ یَّعْلَمَهٗ عُلَمٰٓؤُا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ
اَوَ : کیا لَمْ يَكُنْ : نہیں ہے لَّهُمْ : ان کے لیے اٰيَةً : ایک نشانی اَنْ يَّعْلَمَهٗ : کہ جانتے ہیں اس کو عُلَمٰٓؤُا : علما بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل
کیا ان کے لئے یہ سند نہیں ہے کہ علمائے بنی اسرائیل اس (بات) کو جانتے ہیں ؟
197: اَوَلَمْ یَکُنْ لَّھُمْ ٰایَۃً (کیا ان کے لئے دلیل کافی نہیں) نحو وقراءت : شامی نے تکن پڑھا ہے۔ آیت کان کا اسم اور ان یعلمہ کان کی خبر ہے۔ ای القرآن موجود ذکرہ فی التوراۃ اس قرآن کو وہ جانتے ہیں کیونکہ اس کا تذکرہ تورات میں موجود ہے۔ نمبر 2۔ ایک قول تکن میں ضمیر قصہ ہے اور آیۃ خبر مقدم ان یعلمہ مبتدأ اور یہ جملہ کان کی خبر ہے۔ نمبر 3۔ قول آخر کان تامہ ہے اور ایۃؔ فاعل ہے اور ان یعلمہٗ ایۃً سے بدل ہے یا مبتدأ محذوف ہے یعنی : اَوَ لم تحصل لھم آیۃ کیا تم کو ان کی کوئی نشانی نہیں ملی اور دیگر قراء کے نزدیک یکنؔ مذکر ہے اور ایۃً منصوب ہے اس طرح کہ یہ اس کی خبر ہے اور اَنْ یَّعْلَمَہٗ اس کا اسم ہے تقدیر کلام یہ ہے : او لم یکن لھم علم علماء بنی اسرائیل ایۃً کیا نہیں ہے ان کے لئے علمائے بنی اسرائیل کا علم ایک نشانی۔ عُلَمٰٓؤُا بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ علمائے بنی اسرائیل جیسے عبداللہ بن سلام وغیرہ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا۔ واذا یتلی علیھم قالوا امنَّا بہٖ اِنَّہٗ الحق من ربنا انا کنا من قبلہ مسلمین ] القصص : 53[ رسم خط : مصحف میں علمؤا وائو ما قبل الف سے لکھا گیا ہے۔
Top