Madarik-ut-Tanzil - Ash-Shu'araa : 199
فَقَرَاَهٗ عَلَیْهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ مُؤْمِنِیْنَؕ
فَقَرَاَهٗ : پھر وہ پڑھتا اسے عَلَيْهِمْ : ان کے سامنے مَّا : نہ كَانُوْ : وہ ہوتے بِهٖ : اس پر مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
اور وہ اسے ان (لوگوں) کو پڑھ کر سناتا تو یہ اسے (کبھی) نہ مانتے
عجمی پر اتارنے میں نہ مانتے : 199: فَقَرَاَہٗ عَلَیْھِمْ مَّاکَانُوْا بِہٖ مُؤْمِنِیْنَ (پس وہ ان پر پڑھتا تو وہ اس پر ایمان لانے والے نہ تھے) مطلب یہ ہے ہم نے قرآن مجید ایک فصیح عربی زبان والے پر فصیح زبان میں اتارا انہوں نے اس کو سمجھ تو لیا اور اس کی فصاحت کو بھی پہچان لیا اور اس کا معجز ہونا بھی ظاہر کیا گیا اور اس کے ساتھ علمائے اہل کتاب کا متفقہ بیان کہ اس کے اتارے جانے کی بشارت تو رات میں موجود ہے بھی ملا دیا۔ اور قرآن ان کے مقاصد اور قصص کو شامل ہے۔ اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے قریش کے خیالات کے مطابق اسیاطیر الاولین نہیں۔ مگر قریش ایمان نہ لائے اور اس کا نام کبھی شعر رکھا اور کبھی اس کو سحرقرار دیا اور کہنے لگے یہ محمد ﷺ خود گھڑ کر لاتے ہیں۔ اور اگر ہم اس کو کسی عجمی پر اتار دیتے جو عربی خوب طرح نہ جانتا چہ جائیکہ اس جیسا کلام بنا سکے۔ اور وہ بھی ان کے سامنے معجزانہ طور پر اس کو پڑھتا تو پھر بھی یہ اس کا انکار کردیتے جیسا کہ اب کر رہے ہیں۔ یہ اپنے انکار کیلئے کوئی عذرلنگ تلاش کرلیتے اور اس کو سحر قرار دیتے۔
Top