Madarik-ut-Tanzil - Ash-Shu'araa : 89
اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ
اِلَّا : مگر مَنْ : جو اَتَى اللّٰهَ : اللہ کے پاس آیا بِقَلْبٍ : دل سَلِيْمٍ : پاک
ہاں جو شخص خدا کے پاس پاک دل لے کر آیا (وہ بچ جائے گا )
قلب سلیم : 89: اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ (مگر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے ہاں سالم دل کے ساتھ آیا) سلیم سے مراد کفر و نفاق سے بچا ہوا دل۔ کافر و منافق کا دل بیمار ہوتا ہے جیسا اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فی قلوبھم مرض ] البقرۃ : 10[ مطلب یہ ہے۔ کہ مال کو جب نیکی کے مقامات پر صرف کیا جائے اور اولاد بھی صالح ہو تو اس کو اس سے فائدہ پہنچے گا اور ان کی وجہ سے وہ سلیم القلب ہوگا۔ نمبر 2۔ مال اور اولاد کو غناء کے معنی میں قرار دیا گویا اس طرح فرمایا یوم لا ینفع غنی الاغنی من اتی اللہ بقلب سلیم اس دن کسی کو غناء کام نہ دے گا مگر اس کا غناء جو صحیح سالم دل لے کر آیا کیونکہ دینی غناء سلامتی قلب سے ہی میسر آتا ہے جیسا کہ غناء ظاہری مال و اولاد سے ملتا ہے۔ آیت میں منؔ کو ینفع کا مفعول قرار دیا گیا ای لا ینفع مال ولا بنون الا رجلا سلم قلبہ مع مالہ حیث انفقہ فی طاعۃ اللہ و مع نبیہ حیث ارشدھم الی الدین وعلمھم الشرائع۔ نہ مال کام آئے گا۔ اور نہ اولاد مگر وہ آدمی جس کا دین بمع مال بچا ہوا ہو۔ وہ اس طرح کہ اس نے مال کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں صرف کیا اور اولاد کو دین کی طرف راہنمائی کی اور ان کو شرائع کا علم سکھایا۔ اس صورت میں یہ بھی جائز ہے الا من اتی اللہ بقلب سلیم من فتنۃ المال مگر جو شخص فتنہ مال واولاد سے بچا ہوا دل لے کر آیا۔ اللہ تعالیٰ جو کہ جلیل القدر ذات ہے اس نے خلیل کے استثناء کی بطور اکرام تثویب فرمائی بلکہ ان کے وصف کے طور پر ذکر فرمایا۔ و اِنَّ من شیعتہٖ لابراھیم اذجاء ربہ بقلب سلیمٍ ] الصافات : 83، 84[۔ حسن ترتیب : ابراہیم (علیہ السلام) نے مشرکین کے ساتھ کس عمدہ ترتیب سے کلام فرمایا۔ نمبر 1۔ اولا ان سے سوال کیا کہ وہ کس چیز کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ سوال ان سے اقرار کروانے کیلئے فرمایا بطور استفہام نہیں فرمایا۔ نمبر 2۔ پھر ان کے معبودوں کی طرف متوجہ ہو کر ان کی حیثیت کو اس طرح باطل قرار دیا کہ وہ نقصان و نفع نہیں دے سکتے اور نہ ہی فریادوں کو سنتے ہیں۔ نمبر 3۔ پھر ان کی آبائی تقلید کا ابطال کیا یہ دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی پھر مسئلہ کی صورت اپنی ذات کی طرف نسبت کر کے سمجھائی ان کی طرف نسبت نہیں کی یہاں تک کہ اس گفتگو سے یاد الٰہی کی طرف متوجہ ہو کر اس کی عظمت بیان فرمائی اور اس کے انعامات ولادت سے وفات تک ذکر کئے اور اس کے ساتھ ساتھ آخرت کے امید یافتہ انعامات کا تذکرہ کردیا۔ پھر بارگاہ الٰہی میں مخلصانہ دعائیں اور اس کی بارگاہ میں کامل رجوع کرنے والوں کی طرح گڑ گڑاتے پھر اس کو تذکرئہ قیامت اور اللہ تعالیٰ کے ثواب و عقاب کے ساتھ ملایا اور مشرکین کے اس انجام کا ذکر کردیا جس کی طرف ان کو اس دن دھکیلا جائے گا۔ وہاں جس قدر ان کو شرمندگی و ندامت پیش آئے گی جو اس گمراہی کی بناء پر ہوگی جس پر آج وہ قائم ہیں وہ ندامت کی وجہ سے دنیا کی طرف لوٹنے کی تمنا ظاہر کریں گے تاکہ وہ ایمان وطاعت اختیار کریں۔ (مگر اے بسا آرزو کہ خاک شد)
Top