Madarik-ut-Tanzil - An-Naml : 82
وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ١ۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ۠   ۧ
وَاِذَا : اور جب وَقَعَ الْقَوْلُ : واقع (پورا) ہوجائے گا وعدہ (عذاب) عَلَيْهِمْ : ان پر اَخْرَجْنَا : ہم نکالیں گے لَهُمْ : ان کے لیے دَآبَّةً : ایک جانور مِّنَ الْاَرْضِ : زمین سے تُكَلِّمُهُمْ : وہ ان سے باتیں کرے گا اَنَّ النَّاسَ : کیونکہ لوگ كَانُوْا : تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیت پر لَا يُوْقِنُوْنَ : یقین نہ کرتے
اور جب ان کے بارے میں (عذاب کا) وعدہ پورا ہوگا تو ہم ان کے لئے زمین میں سے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے بیان کردے گا اس لئے کہ لوگ ہماری آیتوں کی پر ایمان نہیں لاتے تھے
82: وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْہِمْ (جب ان پر قول واقع ہوجائے گا) ۔ یہاں قول کے مقصد اور نتیجہ کو قول سے تعبیر فرمایا۔ اور وہ عذاب اور قیام ساعت کا وعدہ ہے۔ وقوعہ۔ کا معنی حصول ہے اور مراد قرب اور اس کی نشانیوں کا ظہور ہے اور وہ وقت جبکہ توبہ فائدہ مند نہ ہوگی۔ اَخْرَجْنَا لَہُمْ دَآبَّۃً مِّنَ الْاَرْضِ تُکَلِّمُہُمْ (ہم ان کے لئے زمین سے ایک چوپایہ نکالیں گے جو ان سے باتیں کرے گا) ۔ یہ وہی ہے جس کو حدیث میں جساسہ سے تعبیر کیا گیا۔ اس کی لمبائی ساٹھ ہاتھ ہوگی ٗ اس کو پکڑنے والا پکڑ نہ سکے گا اور بھاگنے والا اس سے فرار اختیار نہ کرسکے گا۔ اس کی چار ٹانگیں ہونگی۔ داڑھی ٗ دو پیر ٗ اور اس کا سر بیل جیسا ٗ آنکھیں خنزیر جیسی ٗ کان ہاتھی جیسے ٗ سینگ بارہ سینگھے جیسے ٗ گردن شتر مرغ کی طرح ٗ سینہ شیر کی مانند ٗ رنگت چیتے جیسی ٗ کو کھیں بلی نما ٗ دم مینڈھے کی طرح ٗ پائوں اونٹ جیسے اور اس کے دو جوڑوں کے مابین دس ہاتھ کا فاصلہ ہوگا۔ وہ صفا سے نکل کر عربی زبان میں بات کرے گا اور کہے گا۔ اَنَّ النَّاسَ کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ (لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے) ۔ یعنی میرے نکلنے پر۔ کیونکہ اس کا نکلنا بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ اور وہ یہ کہے گا : الا لعنۃ اللّٰہ علی الظالمین۔ نمبر 2۔ ان سے تمام ادیان کے باطل ہونے اور فقط دین اسلام کے برحق ہونے کی بات کرے گا۔ نمبر 3۔ اور یہ بات کرے گا کہ یہ شخص مومن اور یہ کافر ہے۔ قراءت : اَنَّ کوفی وسہل نے مفتوح پڑھا اور جار کو حذف کردیا۔ یعنی تکلمہم باَنَّ ۔ دیگر قراء نے کسرہ دیا کیونکہ کلام قول کے معنی میں ہے اور قول کے بعد اِنّ آتا ہے۔ یا قول مضمر ہے۔ یعنی تقول الدابۃ ذلک۔ اب آیات سے آیات ربنا مراد ہونگی۔ یا نمبر 2۔ اس وقت یہ اللہ تعالیٰ کے قول کی حکایت ہے۔ پھر قیامت کا تذکرہ فرمایا۔
Top