Madarik-ut-Tanzil - Al-Qasas : 81
فَخَسَفْنَا بِهٖ وَ بِدَارِهِ الْاَرْضَ١۫ فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ۗ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ
فَخَسَفْنَا : پھر ہم نے دھنسا دیا بِهٖ : اس کو وَبِدَارِهِ : اور اس کے گھر کو الْاَرْضَ : زمین فَمَا كَانَ : سو نہ ہوئی لَهٗ : اس کے لیے مِنْ فِئَةٍ : کوئی جماعت يَّنْصُرُوْنَهٗ : مدد کرتی اس کو مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوائے وَمَا كَانَ : اور نہ ہوا وہ مِنَ : سے الْمُنْتَصِرِيْنَ : بدلہ لینے والے
پس ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا تو خدا کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی اور نہ وہ بدلا لے سکا
81: فَخَسَفْنَا بِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَ (پس ہم نے اس کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسایا) ۔ قارون موسیٰ (علیہ السلام) کو ہر وقت ایذاء پہنچاتا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اس قرابت نسبی کی وجہ سے مدارات فرماتے۔ یہاں تک کہ زکوٰۃ کا حکم نازل ہوا۔ پس اس نے موسیٰ (علیہ السلام) سے ایک ہزار دینار پر ایک دینار اور ہر ہزار درہم پر ایک درہم کی ادائیگی کا اقرار کر کے صلح کرلی۔ جب اس سے حساب نکالا تو اس کی مقدار بہت بڑھ گئی۔ اس کا نفس بخل پر آمادہ ہوا۔ اس نے بنی اسرائیل کو جمع کر کے کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تو تمہارا مال لینا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا تم ہمارے بڑے ہو جو حکم دو ۔ ہم وہ تسلیم کریں گے۔ اس نے کہا ہم فلاں فاحشہ عورت کو معاوضہ دیتے ہیں۔ تاکہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) پر اپنے ساتھ زنا کی تہمت لگائے۔ بنی اسرائیل نے اس بات میں شرکت سے انکار کردیا۔ مگر اس نے اس عورت کو۔ نمبر 1۔ ایک ہزار دینار پر آمادہ کرلیا۔ نمبر 2۔ سونے کا ایک تھال۔ نمبر 3۔ جس طرح اور جتنا وہ مانگے۔ جب عید کا دن آیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کھڑے ہو کر بنی اسرائیل کو وعظ فرمانے لگے۔ جو چوری کرے ہم اس کا ہاتھ کاٹ دیں گے۔ جو افتراء باندھے ہم اس کو کوڑے لگائیں گے۔ جو زنا کرے اور وہ غیر شادی شدہ ہو۔ ہم اس کو کوڑے لگائیں گے اور اگر شادی شدہ ہو تو اس کو سنگسار کریں گے۔ قارون نے کھڑے ہو کر کہا۔ اگرچہ آپ ہی کیوں نہ ہو ؟ آپ نے فرمایا خواہ میں ہی ہوں۔ اس نے کہا۔ بنی اسرائیل کا خیال ہے کہ تم نے فلاں عورت سے (نعوذ باللہ) بےحیائی کی ہے۔ وہ عورت سامنے بلائی گئی۔ آپ نے اس کو اس ذات باری تعالیٰ کی قسم دی جس نے سمندر کو پہاڑ اور تورات کو نازل فرمایا کہ تم سچ سچ کہو۔ وہ عورت بولی۔ قارون نے تم پر تہمت لگانے کے بدلے میرے لئے اتنا انعام مقرر کیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) روتے ہوئے سجدہ میں گرپڑے۔ اور عرض کیا یارب۔ اگر میں آپ کا رسول ہوں۔ تو آپ اس پر اس انتقام میں غضب نازل فرما دیں۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کی کہ تم زمین کو حکم دو وہ تمہاری تعمیل کرے گی۔ آپ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے قارون کی طرف اسی طرح بھیجا ہے جیسا فرعون کی طرف جو اس کا ساتھی ہے وہ اپنی جگہ رک جائے اور جو میرے ساتھ ہے۔ وہ اس سے علیحدگی اختیار کرلے۔ تمام مجمع سوائے دو آدمیوں کے اس سے الگ ہوگیا۔ پھر آپ نے زمین کو حکم دیا۔ ان کو پکڑ لو۔ ان کو زمین سے ایڑیوں تک پکڑ لیا۔ پھر آپ نے فرمایا اس کو پکڑ لو۔ زمین نے کمر تک ان کو دھنسا دیا۔ پھر فرمایا پکڑو۔ زمین نے گردن تک ان کو دھنسا دیا۔ قارون اور اس کے ساتھی موسیٰ (علیہ السلام) سے گڑ گڑا کر کہتے تھے اور ان کو اللہ تعالیٰ اور رحم کا واسطہ دیتے۔ موسیٰ (علیہ السلام) شدت غضب کی وجہ سے ان کی طرف توجہ نہ فرماتے تھے۔ پھر کہا۔ ان کو پکڑلے۔ زمین نے ان کو دبوچ لیا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرمایا۔ اس نے تم سے کئی مرتبہ فریاد کی مگر تو نے رحم نہ کیا۔ میری عزت کی قسم ! اگر وہ مجھ سے ایک مرتبہ رحمت طلب کرتا تو میں اس پر رحم کردیتا۔ بعض بنی اسرائیل نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو اس لئے ہلاک کیا تاکہ اس کے مال پر قبضہ کرلے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی اللہ تعالیٰ نے اس کے گھر اور خزانوں کو زمین میں دھنسا دیا۔ فَمَا کَانَ لَہٗ مِنْ فِئَۃٍ (پس نہیں تھی کوئی جماعت اس کے لئے) ۔ یَنْصُرُوْنَہٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ (جو اس کی مدد کرے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کے لئے) ۔ وَمَا کَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ (اور نہ وہ ہوا بدلہ لینے والوں میں سے) جو موسیٰ (علیہ السلام) سے انتقام لیتے۔ نمبر 2۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو روکنے میں مدد کرتے۔ عرب کہتے ہیں : نصرہ من عدوہٖ فانتصرای منعہ منہ فامتنع اس کو اس سے روکا پس وہ رک گیا۔
Top