Madarik-ut-Tanzil - Al-Qasas : 9
وَ قَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَ لَكَ١ؕ لَا تَقْتُلُوْهُ١ۖۗ عَسٰۤى اَنْ یَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
وَقَالَتِ : اور کہا امْرَاَتُ : بیوی فِرْعَوْنَ : فرعون قُرَّةُ : ٹھنڈک عَيْنٍ لِّيْ : میری آنکھوں کے لیے وَلَكَ : اور تیرے لیے لَا تَقْتُلُوْهُ : تو قتل نہ کر اسے عَسٰٓى : شاید اَنْ يَّنْفَعَنَآ : کہ نفع پہنچائے ہمیں اَوْ نَتَّخِذَهٗ : یا ہم بنالیں اسے وَلَدًا : بیٹا وَّهُمْ : اور وہ لَا يَشْعُرُوْنَ : (حقیقت حال) نہیں جانتے تھے
اور فرعون کی بیوی نے کہا کہ (یہ) میری اور تمہاری (دونوں کی) آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اس کو قتل نہ کرنا شاید کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اسے بیٹا بنالیں اور وہ (انجام سے) بیخبر تھے
9: وَقَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَلَکَ (فرعون کی بیوی نے کہا یہ میرے اور تیرے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے) ۔ روایت میں ہے۔ کہ جب انہوں نے صندوق اٹھا لیا۔ تو اس کو کھولنے کی کوشش کی مگر نہ کھلا۔ پھر توڑنا چاہا اس سے بھی عاجز رہے۔ آسیہ قریب ہوئیں تو انہوں نے صندوق کے درمیان میں نور دیکھا۔ پس اس نے کھولنے کی کوشش کی تو صندوق کھل گیا۔ اچانک بچے کو دیکھا جس کی جبین نور سے ٹمٹما رہی تھی۔ ان سب کو دیکھتے ہی اس سے محبت ہوگئی۔ فرعون کی ایک بیٹی برص زدہ تھی۔ اس نے اس بچے کے چہرے پر نگاہ ڈالی تو اس کا برص جاتا رہا۔ فرعون کی قوم کے بعض گمراہ لوگوں نے کہا یہی وہ بچہ ہے جس سے آپ کو خطرہ تھا ہمیں اس کے قتل کی اجازت دیں۔ فرعون نے ارادہ کرلیا مگر آسیہ نے کہا قرت عین لی ولک۔ یہ میرے اور تیرے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ فرعون نے کہا تیرے لئے نہ کہ میرے لئے۔ حدیث الفتون جس کی تخریج نسائی نے کی ہے۔ یہ ہے اگر وہ کہتا جیسا آسیہ نے کہا تو اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت دیتے جیسا اس کو ملی۔ اور یہ بطور فرض کے فرمایا۔ اگر اس کے دل پر سخت دلی کی مہر نہ لگی ہوتی تو وہ اسی طرح کہتا جیسا کہ اس نے کہا اور وہ اسلام لے آتا جیسا وہ اسلام لائی۔ نحو : ہو مبتدأ محذوف ہے اور قُرۃ اس کی خبر ہے۔ اور لی ولک یہ دونوں قرۃ کی صفتیں ہیں۔ لَاتَقْتُلُوْہُ (اس کو قتل مت کرو) ۔ اس کو بادشاہوں کی طرح عزت سے خطاب کیا۔ نمبر 2۔ گمراہوں کو مخاطب کر کے اس نے عَسٰٓی اَنْ یَّنْفَعَنَآ کہا۔ اس لئے کہ اس میں برکات چھپی ہیں۔ نفع کی دلالتیں موجود ہیں اور وہ چہرے پر نورانیت اور برصاء لڑکی کا درست ہونا ہے۔ اَوْ نَتَّخِذَہٗٗ وَلَدًا (یا اس کو بیٹا بنالیں) ۔ یا اس کو متبنّیٰ بنالیں یہ بادشاہوں کا متبنّیٰ بننے کے قابل ہے۔ وَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ (اور ان کو احساس بھی نہ تھا) ۔ نحو : نمبر 1۔ آل فرعون ذوالحال اور یہ اس کا حال ہے۔ تقدیر کلام یہ ہے۔ فالتقطہ آل فرعون لیکون لہم عدوا وحزنا وقالت امرأۃ فرعون کذا وہم لا یشعرون انہم علی خطأ عظیم فی التقاطہ ورجاء النفع منہ و تبنّیہ۔ نمبر 2۔ اِنّ فرعون یہ جملہ معترضہ ہے۔ جو کہ معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان واقع ہے۔ اور ان کے خطا کے مفہوم کی تاکید ہے۔ اس کلام کا نظم معانی وبیان والوں کے ہاں کتنا ہی خوب ہے۔
Top