Madarik-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 122
اِذْ هَمَّتْ طَّآئِفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا١ۙ وَ اللّٰهُ وَلِیُّهُمَا١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ
اِذْ : جب ھَمَّتْ : ارادہ کیا طَّآئِفَتٰنِ : دو گروہ مِنْكُمْ : تم سے اَنْ : کہ تَفْشَلَا : ہمت ہاردیں وَاللّٰهُ : اور اللہ وَلِيُّهُمَا : ان کا مددگار وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن
اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے جی چھوڑ دینا چاہا مگر خدا ان کا مددگار تھا اور مومنوں کو خدا ہی پر بھروسا رکھنا چاہئے
بنو حارثہ و بنو سلمہ کے ساتھ اللہ کی ولایت : 122: اِذْھَمَّتْ طَّآپفَتٰنِ مِنْکُمْ اَنْ تَفْشَلَا وَاللّٰہُ وَلِیُّھُمَا وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ۔ اِذْھَمَّتْ (جب ارادہ کیا) یہ اذغدوت سے بدل ہے۔ یا علیم کے معنی نے اس میں عمل کیا ہے۔ طَّآ پفَتٰنِ مِنْکُمْ (دو گروہوں نے تم میں سے) اس سے مراد انصار کے دو قبیلے بنو سلمہ جو خزرج کی شاخ تھی اور بنو حارثہ جو اوس کی شاخ تھی مراد ہیں۔ آپ ﷺ احد کی طرف ایک ہزار لڑنے والوں کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے تھے۔ جبکہ مشرکین مکہ کی نفری تین ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ اور آپ ﷺ نے ان سے جمے رہنے کی صورت میں فتح کا وعدہ فرمایا۔ راستہ میں عبداللہ بن ابی لشکر کا تیسرا حصہ اپنے ساتھ لیکر واپس لوٹ گیا اور یہ کہا ہم اپنی جانوں اور اولادوں کو کیوں کٹوائیں ؟ بنو حارثہ و بنو سلمہ نے بھی اسکے پیچھے جانے کا ارادہ کیا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بات سے محفوظ کرلیا۔ پس وہ آپ ﷺ کے ساتھ رہے۔ اَنْ تفْشَلَا (یہ کہ ہمت ہار دیں) وہ جبن وضعف کی وجہ سے بزدلی اختیار کریں۔ الفشل نا مردی اور بزدلی کو کہتے ہیں۔ وَاللّٰہُ وَلِیُّھُمَا (اور اللہ تعالیٰ انکا محب و ناصر تھا) یا ان کے معاملے کا مالک تھا۔ پھر وہ کیوں بزدلی کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر کیوں کر بھروسہ نہیں کرتے ؟ وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ (اور اللہ تعالیٰ ہی پر ایمان والوں کو بھروسہ کرنا چاہیے) ۔ یعنی انکا معاملہ یہ ہے کہ وہ اسی ہی پر بھروسہ کریں اور اپنے تمام معاملات کو اسی ہی کے سپرد کریں۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی قسم ! ہمیں یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ ہم نے ارادہ نہ کیا ہوتا جو ہم نے کیا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اطلاع دی ہے کہ وہ ہمارا ولی و کارساز ہے۔
Top