Madarik-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 123
وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ نَصَرَكُمُ : مدد کرچکا تمہاری اللّٰهُ : اللہ بِبَدْرٍ : بدر میں وَّاَنْتُمْ : جب کہ تم اَذِلَّةٌ : کمزور فَاتَّقُوا : تو ڈروا اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر گزار ہو
اور خدا نے جنگ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تھی اور اس وقت بھی تم بےسروسامان تھے پس خدا سے ڈرو (اور ان احسانوں کو یاد کرو) تاکہ شکر کرو
123: وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ فَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ۔ اس میں بدر کا واقعہ یاد دلایا جو موجب توکل تھا۔ اس لیے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عنایت فرمائی جب کہ وہ کمزور بھی تھے اور تعداد میں بھی کم تھے۔ بدر کی یاددھانی : وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ (البتہ تحقیق تمہاری اللہ بدر میں مدد فرما چکا) بدر ؔ۔ یہ مکہ و مدینہ کے درمیان ایک کنواں ہے۔ جس کو بدر نامی آدمی نے کھدوایا تھا۔ یا احد کے بعد بدر کا ذکر کیا تاکہ صبر و شکر جمع ہوجائیں۔ قلت کی کیفیت : وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ (اور تم تعداد میں کم تھے) مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ (313) سے تین سو انیس (319) کے درمیان تھی جبکہ دشمن ایک ہزار جنگجوئوں پر مشتمل تھا۔ اور سامان کی کمزوری کا حال یہ تھا کہ پانی بردار اونٹوں پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ جنکی تعداد کل ستر تھی اور ایک گھوڑا تھا۔ حالانکہ دشمنوں کے پاس سو گھوڑے۔ اسلحہ اور شان و شوکت تھی۔ نکتہ : اللہ تعالیٰ نے اَذِلَّــۃٌ بروزن اَفْعِلَۃٌ جمع قلت ذکر کیا تاکہ سواریوں اور ہتھیاروں کی کمی کے اظہار کے ساتھ مسلمانوں کی قلت تعداد کا بھی اظہار ہو۔ فَاتَّقُوا اللّٰہَ (تم اللہ سے ڈرو) تم اپنے رسول ﷺ کے ساتھ ثابت قدمی میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (تاکہ تم شکر ادا کرو) اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو فتح عنایت فرمائی ہے۔ شکریہ کا طریق ثابت قدم رہ کر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ اس میں بتلا دیا کہ بندہ کو اللہ تعالیٰ کی نعمت کی طرف رغبت شکریہ کی غرض سے ہونی چاہیے۔
Top