Madarik-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 125
بَلٰۤى١ۙ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا وَ یَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِهِمْ هٰذَا یُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِكَةِ مُسَوِّمِیْنَ
بَلٰٓى : کیوں نہیں اِنْ : اگر تَصْبِرُوْا : تم صبر کرو وَتَتَّقُوْا : اور پرہیزگاری کرو وَيَاْتُوْكُمْ : اور تم پر آئیں مِّنْ : سے فَوْرِھِمْ : فوراً ۔ وہ ھٰذَا : یہ يُمْدِدْكُمْ : مدد کرے گا تمہاری رَبُّكُمْ : تمہارا رب بِخَمْسَةِ : پانچ اٰلٰفٍ : ہزار مِّنَ : سے الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے مُسَوِّمِيْنَ : نشان زدہ
ہاں اگر تم دل کو مضبوط رکھو اور (خدا سے) ڈرتے رہو اور کافر تم پر جوش کے ساتھ دفعۃً حملہ کردیں تو پروردگار پانچ ہزار فرشتے جن پر نشان ہوں گے تمہاری مدد کو بھیجے گا
125: بَلٰٓی ِانْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَیَاْتُوْکُمْ مِّنْ فَوْرِھِمْ ھٰذَا یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَۃِ ٰالٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓپکَۃِ مُسَوِّمِیْنَ ۔ فوری و کافی مدد : بَلٰٓی (کیوں نہیں) نفی تاکید بلَنْ کے بعد بَلٰیؔ کو ایجاب کے لیے لائے کہ اتنے فرشتوں سے امداد تمہارے لیے کافی ہے پس کفایت کو لازم کردیا۔ پھر فرمایا ِانْ تَصْبِرُوْا (اگر تم صبر کرو) اگر تم قتال پر صبر کرو۔ وَتَتَّقُوْا (اور تقویٰ اختیار کرو) اور رسول اللہ ﷺ کی مخالفت سے بچو۔ وَیَاْتُوْکُمْ (اور وہ لوگ تم پر آپہنچیں) اور تمہارے پر مشرکین مِّنْ فَوْرِھِمْ ھٰذَا (اسی دم) آپڑیں۔ یہ فورؔ کا لفظ فار القدر سے لیا گیا جبکہ وہ جوش مارے تیزی کیلئے بطور استعارہ استعمال کیا گیا۔ پھر اس سے اس حالت کی تعبیر کی جاتی ہے جس میں دیر نہ ہو۔ اور کسی دوسری طرف توجہ نہ کی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ خرج من فورہٖ وہ فوراً نکل گیا۔ جیسا کہ تم اس طرح کہتے ہو۔ خرج من ساعتہ ولم یلبث کہ وہ اسی گھڑی بلا روکے نکل گیا۔ کرخی (رح) کے قول میں یہی معنی ہے۔ الا مر المطلق علی الفور لا علی التراخی۔ کہ امر مطلق کی تعمیل اسی گھڑی لازم ہے تاخیر کرنا جائز نہیں۔ اب مطلب آیت کا یہ ہے کہ اگر وہ تمہاری اسی گھڑی میں آگئے۔ ہٰذا یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَۃِ ٰالٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓپکَۃِ ( تمہارا رب پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری یہ امداد فرمائے گا) یعنی ان کی آمد کی صورت میں فرشتوں کی آمد ان کے آنے سے متاخر نہ ہوگی حاصل یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری جلد جلد مدد کرے گا۔ اور تمہیں فتح میسر فرمائے گا اگر تم صبر وتقویٰ پر قائم رہوگے۔ نشان دار گھوڑے : مُسَوِّمِیْنَ (نشاندار ) قراءت : مُسَوِّمِیْنَ وائو کے کسرہ کے ساتھ مکی ‘ ابو عمرو، عاصم ‘ سہل نے معلمین انفسہم اپنے نفوس کو ظاہر کرنے والے یا اپنے گھوڑوں کو ایسی علامت سے ظاہر کرنے والے ہونگے جس سے وہ لڑائی میں پہچانے جائیں گے۔ السومۃ علامت کو کہا جاتا ہے۔ ضحاک کا قول ہے کہ وہ سفید اون کا نشان اپنے گھوڑوں کی پیشانیوں اور دموں پر لگانے والے ہونگے۔ دوسرے قراء نے وائو کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ نشان زدہ ہونگے۔ کلبی کا قول یہ ہے وہ زرد رنگ کے عمامے پہنے ہونگے ان کے پلے اپنے کندھوں پر لٹکانے والے ہونگے۔ حضرت زبیر ؓ کا عمامہ بدر کے دن زرد رنگ کا تھا۔ فرشتے بھی زرد عماموں میں نازل ہوئے۔ قتادہ کا قول یہ ہے کہ تین ہزار پھر پانچ ہزار فرشتے اترے۔
Top