Madarik-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 143
وَ لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَلْقَوْهُ١۪ فَقَدْ رَاَیْتُمُوْهُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور البتہ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ : تم تمنا کرتے تھے الْمَوْتَ : موت مِنْ قَبْلِ : سے قبل اَنْ : کہ تَلْقَوْهُ : تم اس سے ملو فَقَدْ رَاَيْتُمُوْهُ : تو اب تم نے اسے دیکھ لیا وَاَنْتُمْ : اور تم تَنْظُرُوْنَ : دیکھتے ہو
اور تم موت (شہادت) کے آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے سو تم نے اس کو آنکھوں سے دیکھ لیا
تمنائے موت پر توبیخ : 143: وَلَقَدْ کُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَلْقَوْہُ فَقَدْ رَاَیْتُمُوْہُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ۔ (البتہ تم موت کی تمنا کیا کرتے تھے اس کو دیکھنے سے پہلے۔ اس میں ان لوگوں کو مخاطب کیا جو بدر میں حاضر نہ ہوسکے تھے اور ان کے دل میں تڑپ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی معرکہ میں حاضر ہوں تاکہ شہادت کی سعادت پاسکیں اور یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اصرار کیا کہ ان کو لیکر مشرکین کی طرف نکلیں۔ حالانکہ آپ کی رائے مدینہ منورہ میں ٹھہرنے کی تھی۔ مطلب یہ ہوا کہ تم موت کی تمنا اسکے مشاہدے سے پہلے کرتے تھے اور اس کی شدت کو پہچاننے سے پہلے تمنا کرتے تھے۔ فَقَدْ رَاَیْتُمُوْہُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ (پس تم نے اس کو آنکھوں سے دیکھ لیا) یعنی تم نے کھلی آنکھوں سے دیکھا اس حال میں کہ تمہارے سامنے تمہارے بھائی بند مارے گئے۔ اور تم نے خود قتل کو جھانک لیا۔ دراصل موت کی تمنا پر ان کو توبیخ کی گئی ہے اور اس بات پر کہ تم اپنے اصرار سے رسول اللہ ﷺ کے نکلنے کا باعث بنے پھر آپ ﷺ سے پیچھے ہٹ گئے۔ انہوں نے شہادت کی تمنا کی تاکہ شہداء والی عظمت پالیں۔ اسمیں اس قسم کا قصد ہرگز نہ تھا کہ کفار کو غلبہ حاصل ہوجائے اس کی مثال اس طرح ہے جیسا کہ کوئی عیسائی ڈاکٹر سے دوائی لے اس کا مقصد تو حصول شفاء ہے اور اسکے دل میں یہ خیال بھی نہیں گزرتا کہ اس میں دشمن کو نفع پہنچایا جارہا ہے۔ اور اسکے فن کو رائج کیا جارہا ہے۔
Top