Madarik-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 158
وَ لَئِنْ مُّتُّمْ اَوْ قُتِلْتُمْ لَاۡاِلَى اللّٰهِ تُحْشَرُوْنَ
وَلَئِنْ : اور اگر مُّتُّمْ : تم مرگئے اَوْ : یا قُتِلْتُمْ : تم مار دیے گئے لَاِالَى اللّٰهِ : یقیناً اللہ کی طرف تُحْشَرُوْنَ : تم اکٹھے کیے جاؤگے
اور اگر تم مرجاؤ یا مارے جاؤ خدا کے حضور میں ضرور اکٹھے کیے جاؤ گے
جس کو مقصود ملا اس کو زاد کی ضرورت نہیں : 158: وَلَپنْ مُّتُّمْ اَوْقُتِلْتُمْ لَاِ الَی اللّٰہِ تُحْشَرُوْنَ ۔ (اگر تم مر جائو یا قتل کردیے جائو تو ضرور اللہ تعالیٰ کی طرف تمہارا حشر ہوگا) یعنی وسیع رحمت، عظیم ثواب دینے والی ذات کی طرف تمہیں اکٹھا کیا جائے گا۔ لطیف نکتہ : یہاں اسم باری تعالیٰ لا یا گیا اور اس سے قبل آنے والے حرف پر لام تاکید کا داخل کر کے ایک عجیب شان کلام میں پیدا کردی جو دلیل سے بےنیاز ہے۔ یعنی خواہ موت کسی طریق سے ہو اللہ ہی کی طرف تمہارا حشر ضرور ہونا ہے۔ کسی دوسرے کے پاس جانا نہ ہوگا۔ اس لئے تابحد امکان اس کا قرب حاصل کرلو تاکہ کل قید فراق سے چھوٹ کر اس محبوب کی بارگاہ میں پہنچ جائو۔ جس طرح لمغفرۃؔ اوپر والی آیت میں قسم کے جواب کے طور پر واقع ہے۔ اور جواب شرط کی جگہ استعمال ہو رہا ہے اسی طرح لا الی اللہ تحشرون۔ جواب شرط کے قائم مقام ہے اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ اولاً کفار کے اس گمان کا جواب دیا کہ جو شخص سفر کرے یا غزوہ میں ہمارے بھائیوں میں سے شریک ہو اگر وہ مدینہ میں رہائش پذیر رہتا تو اس کو موت نہ آتی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس قسم کے گمان سے منع کیا کیونکہ یہ چیز جہاد میں شرکت سے رکاوٹ ہے۔ پھر فرمایا اگر ہلاکت بالموت اسی طرح واقع ہوجائے یا تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارے جائو تو اس سے ایسی مغفرت و رحمت میسر ہوگی جو اس دنیا سے لاکھ درجہ بہتر ہے جو تم جمع کررہے ہو۔ کیونکہ دنیا تو آخرت کیلئے زاد راہ لینے کی جگہ ہے۔ جب بندہ نے مقصود پالیا تو زاد کی بھی ضرورت نہ رہی۔
Top