Madarik-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 172
اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَصَابَهُمُ الْقَرْحُ١ۛؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْهُمْ وَ اتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌۚ
اَلَّذِيْنَ : جن لوگوں نے اسْتَجَابُوْا : قبول کیا لِلّٰهِ : اللہ کا وَالرَّسُوْلِ : اور رسول مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَآ : کہ اَصَابَھُمُ : پہنچا انہیں الْقَرْحُ : زخم لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو اَحْسَنُوْا : انہوں نے نیکی کی مِنْھُمْ : ان میں سے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کی اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
جنہوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا و رسول (کے حکم) کو قبول کیا جو لوگ ان میں نیکوکار اور پرہیزگار ہیں ان کے لئے بڑا ثواب ہے
غزوئہ حمراء الاسد کا تذکرہ : 172: الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ مِنْم بَعْدِ مَآ اَصَابَھُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْھُمْ وَاتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌ۔ (وہ جنہوں نے اللہ اور رسول کی دعوت جہاد کو لبیک کہا) نحو : اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا مبتداء اور لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا۔ اس کی خبر ہے یا جملہ مؤمنین کی صفت ہے یا اَمْدَحُ فعل محذوف کا مفعول ہے۔ مِنْم بَعْدِ مَآ اَصَابَھُمُ الْقَرْحُ اسکے بعد کہ ان کو زخم پہنچے۔ القرح زخم، روایات میں ہے کہ ابو سفیان اور اسکے ساتھی جب احد سے واپس لوٹ گئے تو مقام الروحاء میں پہنچ کر شرمندہ ہوئے کہ ہم بلاوجہ کوچ کر آئے۔ واپسی کا ارادہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ اطلاع ملی تو آپ نے کفار پر رعب قائم کرنے کیلئے اور مسلمانوں کی قوت کا مظاہرہ کرنے کیلئے صحابہ کرام ؓ کو ابوسفیان کا پیچھا کرنے کیلئے نکلنے پر برانگیختہ کیا۔ چناچہ اتوار کے دن ستّر صحابہ کرام ؓ کے ساتھ آپ مدینہ سے روانہ ہوئے یہاں تک کہ حمراء الاسد کے مقام تک پہنچے۔ یہ مدینہ منورہ سے آٹھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ صحابہ کرام ؓ زخمی حالت میں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ چناچہ کفار سر پر پائوں رکھ کر بھاگ گئے۔ یہ آیت اس سلسلہ میں اتری لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْھُمْ وَاتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌ۔ (ان لوگوں کیلئے جنہوں نے ان میں سے نیکی کی اور تقویٰ اختیار کیا۔ آخرت میں بہت بڑا بدلہ ہے) نحو : مِنْہُمْ میں مِنْ تبیین کیلئے ہے۔ جیسا اس ارشاد میں : وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا۔ (الفتح : 29) مِنْ کے بیانیہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی بات پر لبیک کہی۔ وہ تمام نیکی وتقویٰ اختیار کرنے والے تھے نہ کہ بعض۔
Top