Madarik-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 178
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّمَا نُمْلِیْ لَهُمْ خَیْرٌ لِّاَنْفُسِهِمْ١ؕ اِنَّمَا نُمْلِیْ لَهُمْ لِیَزْدَادُوْۤا اِثْمًا١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ
وَلَا : اور نہ يَحْسَبَنَّ : ہرگز نہ گمان کریں الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : جن لوگوں نے کفر کیا اَنَّمَا : یہ کہ نُمْلِيْ : ہم ڈھیل دیتے ہیں لَھُمْ : انہیں خَيْرٌ : بہتر لِّاَنْفُسِھِمْ : ان کے لیے اِنَّمَا : درحقیقت نُمْلِيْ : ہم ڈھیل دیتے ہیں لَھُمْ : انہیں لِيَزْدَادُوْٓا : تاکہ وہ بڑھ جائیں اِثْمًا : گناہ وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب مُّهِيْنٌ : ذلیل کرنے والا
اور کافر لوگ یہ نہ خیال کریں کہ ہم جو ان کو مہلت دیے جاتے ہیں تو یہ انکے حق میں اچھا ہے (نہیں بلکہ) ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں اور آخرکار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا
اختلاف و نحو : قراءت : یہ لَا یَحْسَبَنَّ اور اسکے بعد والے تین میں باؔ مضموم اور یحسبن یا ؔ کے ساتھ پڑھا مکی اور ابوعمرو نے اور تمام مقامات پر حمزہ نے تاؔ سے پڑھا۔ اور مدنی اور شامی نے تمام مقامات پر یاؔ کے ساتھ سوائے آل عمران کی آیت 178 میں فلا تحسبنَّہم یہ تا ؔ کے ساتھ ہے۔ باقی قراء نے پہلے دو یا ؔ کے ساتھ اور آخری دو تا ؔ کے ساتھ پڑھے ہیں۔ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا کافر۔ جنہوں نے یا سے پڑھا انہوں نے اس کو مرفوع قرار دیا ای لا یحسبن الکافرون انّ اپنے اسم و خبر کے ساتھ یحسبن کے دو مفعولوں کے قائم مقام ہے۔ تقدیر عبارت یہ ہے ولا یحسبن الذین کفروا املاء نا خیرًا لا نفسہم۔ کافرہر گزگمان نہ کریں کہ ہمارا ان کو مہلت دینا ان کے لئے بہتر ہے اَنَّمَا کا ما ؔ مصدریہ ہے۔ اصول خط کے مطابق اس کو الگ۔ اَنَّ ۔ مَا لکھا جانا چاہیے تھا لیکن مصحف عثمانی میں متصل لکھا گیا اسی لئے اس کی اتباع میں متصل لکھا جاتا ہے۔ جنہوں نے تا ؔ سے پڑھا لا تحسبن انہوں نے الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا کو منصوب قرار دیا۔ ای لا تحسبن الکافرین اور اَنَّمَا نُمْلِیْ یہ کافرین سے بدل ہے۔ تقدیر عبارت یہ ہے ولا تحسبن انما نملی للکافرین خیر لھم اور اَنَّ مع مَا کے ساتھ دو مفعولوں کے قائم مقام ہے۔ الاملاء کا معنی امھال اور عمر کا طویل کردینا ہے۔ جملہ مستانفہ ماقبل کی علت ہے : اِنَّمَا نُمْلِیْ لَھُمْ لِیَزْدَا دُوْٓا اِثْمًا (بیشک ہمارا حکم دینا اس لئے ہے۔ تاکہ وہ گناہ میں بڑھ جائیں) یہ مَا اس بات کا حقدار ہے کہ متصل لکھا جائے۔ کیونکہ یہ مَا کافہ ہے۔ نہ کہ اول اور یہ جملہ مستانفہ پہلے جملے کی علت ہے۔ گویا اس طرح کہا گیا۔ ما بالھم لا یحسبون الاملاء خیرًا لہم ان کو کیا ہوگیا کہ وہ مہلت کو بہتر خیال نہیں کرتے ؟ تو اس کا جواب دیا بیشک ہم ان کو مہلت اس لئے دے رہے ہیں تاکہ گناہوں میں وہ ترقی کرلیں۔ وَلَھُمْ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ۔ (اور ان کے لئے ذلت والا عذاب ہے)
Top