Madarik-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 24
ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ١۪ وَّ غَرَّهُمْ فِیْ دِیْنِهِمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّھُمْ : اس لیے کہ وہ قَالُوْا : کہتے ہیں لَنْ تَمَسَّنَا : ہمیں ہرگز نہ چھوئے گی النَّارُ : آگ اِلَّآ : مگر اَيَّامًا : چند دن مَّعْدُوْدٰت : گنتی کے وَغَرَّھُمْ : اور انہٰں دھوکہ میں ڈالدیا فِيْ : میں دِيْنِهِمْ : ان کا دین مَّا : جو كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ : وہ گھڑتے تھے
یہ اس لیے کہ یہ اس بات کے قائل ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں چند روز کے سوا چھو ہی نہیں سکے گی اور جو کچھ یہ دین کے بارے میں بہتان باندھتے رہے ہیں اس نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے
آیت 24: ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَنْ تَمسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَ یََّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ ۔ وَغَرَّھُمْ فِیْ دِیْنِہِمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ۔ یہ (اعراض) اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے کہا ہمیں ہرگز جہنم کی آگ سوائے چند دنوں کے نہ چھوئے گی اور ان کو دھوکے میں انکی افتراء پر دازیوں نے ڈالا ہے) ذٰلِکَ کا مشار ٌ الیہ روگردانی اور اعراض ہے جس کا سبب انکا عذاب کے معاملے کو معمولی قرار دینا اور چنددنوں میں جہنم سے فراغت کا گمان ہے وہ قلیل مدت چالیس دن یا سات دن ہیں۔ نحو : ذٰلک مبتداء بانّھم اس کی خبر ہے۔ وَغَرَّھُمْ فِیْ دِیْنِہِمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ یعنی ان کو ان کے افتراء علی اللّٰہ نے دھوکہ میں ڈال دیا اور وہ افتراء یہ ہے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں وہ ہمیں ہمارے گناہوں کی وجہ سے معمولی مدت سزا دے گا۔
Top