Madarik-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 26
قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ١٘ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ١ؕ بِیَدِكَ الْخَیْرُ١ؕ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
قُلِ : آپ کہیں اللّٰهُمَّ : اے اللہ مٰلِكَ : مالک الْمُلْكِ : ملک تُؤْتِي : تو دے الْمُلْكَ : ملک مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے وَتَنْزِعُ : اور چھین لے الْمُلْكَ : ملک مِمَّنْ : جس سے تَشَآءُ : تو چاہے وَتُعِزُّ : اور عزت دے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے وَتُذِلُّ : اور ذلیل کردے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے بِيَدِكَ : تیرے ہاتھ میں الْخَيْرُ : تمام بھلائی اِنَّكَ : بیشک تو عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
اور کہیے کہ اے خدا (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخش دے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے (اور) بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے
26: قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآ ئُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ ، بِیَدِکَ الْخَیْرُ ، اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ (آپ کہہ دیں کہ اے اللہ جو تمام ملک کا مالک ہے تو جس کو چاہے بادشاہ بنا دے اور جس سے چاہے بادشاہت چھین لے اور تو جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت دے۔ ساری بھلائی تیرے ہی (مبارک) ہاتھ میں ہے بیشک تو سب کچھ کرسکتا ہے) ۔ اسم جلالی کی خصوصیت : قُلِ اللّٰھُمَّ ۔ اللّٰھم اصل میں یا اللہ ہے حرف نداء کو حذف کر کے میم بدلے میں لائے اور میم اور یاء دونوں نہیں لائے کیونکہ اصل و عوض جمع نہیں ہوسکتے۔ یہ اسم جلالہ کی ایک خصوصیت ہے۔ نمبر 2: دوسری خصوصیت لام تعریف کے ساتھ حرف نداء کا آنا ہے۔ نمبر 3: تیسری خصوصیت اس کا ہمزہ قطعی ہے۔ نمبر 4: چوتھی خصوصیت یہ تفخیم کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ نمبر 5: پانچویں خصوصیت اس پر تاء قسمیہ آتی ہے۔ تَاللّٰہِ مٰلِکَ الْمُلْکِتو جنس ملک کا مالک ہے پس تو اس میں اس طرح تصرف کرتا ہے جس طرح بادشاہ اپنی مملوکہ چیزوں میں۔ نحو : یہ دوسرا منادٰی ہے یا ملک الملک یہود کے تعجب کا جواب : تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآ ئُ (تو ملک میں سے جس کو جتنا تو نے اس کے لیے طے کیا ہے، دیتا ہے) وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ (یعنی تو جس سے چاہے چھین لیتا ہے) پہلا لفظ ملک عام ہے اور دوسرا اور تیسرا کل میں سے خاص ہیں روایت میں وارد ہے کہ جب مکہ فتح ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت سے فارس روم کی سلطنتوں کا وعدہ فرمایا اس پر یہود و منافقین نے کہا بہت بعید بات ہے۔ کہاں محمد (ﷺ) اور کہاں مملکت فارس و روم۔ وہ تو بڑے غلبہ اور لائو لشکر والے ہیں۔ اس پر یہ آیت اتری، ( اسباب النزول للواحدی) وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ ۔ (جس کو چاہتے ہیں بادشاہی سے عزت دیتے ہیں) ۔ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآ ئُ (اور جس کو چاہتے ہیں بادشاہی چھین کر ذلیل کردیتے ہیں) بِیَدِکَ الْخَیْرُ ۔ (تیرے ہاتھ میں خیرو شر ہے) یہاں ضدین میں سے ایک کے تذکرے پر اکتفا کیا گیا (جبکہ دوسرا، خود سمجھ آجاتا ہے) یا دوسری تفسیر یہ ہے کہ خیر کو خصوصیت سے اس لیے ذکر کیا کہ رفتار کلام کا تقاضا یہی تھا۔ کیونکہ ایمان والوں کی طرف خیر کو کھینچ کر لایا جارہا تھا اور کفار کو یہی بات ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ پس کہا تیرے ہاتھ میں بھلائیاں ہیں جو تو اپنے دوستوں کو عنایت فرمائے گا۔ باوجود اس کے کہ تیرے دشمن اس کو پسند نہیں کرتے۔ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ (تو ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے) جبکہ دوسروں کی تھوڑی بہت قدرت بھی تیری ہی قدرت کا مرہون منت ہے۔ لطیف تفسیر : ایک اور تفسیر یہ ہے کہ ملک سے مراد سلطنت عافیت یا سلطنت قناعت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت کے بادشاہ میری امت کے وہ لوگ ہونگے جو ایک یوم کی خوراک پر قناعت کرنے والے ہونگے یا صرف قیام لیل کا اختیار ہے۔ حضرت شبلی (رح) فرماتے تھے کائنات کے بنانے والے پر استغناء اختیار کرنا کونین سے بےپروائی اختیار کرنا ملک ہے اور عزت سے معرفت کی عزت یا استغناء باسکون یا قناعت کی عزت مراد ہے۔ اور ذلت سے انکی اضداد مراد ہیں فائدہ : پھر اپنی عظیم قدرت کو دن اور رات کے تقابل سے بیان کیا۔ اور زندہ اور مردہ کو ایک دوسرے سے نکالنے کا حال بیان کیا۔ اور اس پر بطور عطف بلا حساب رزق کو لائے۔
Top