Madarik-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 28
لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً١ؕ وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ
لَا يَتَّخِذِ :نہ بنائیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) اَوْلِيَآءَ : دوست (جمع) مِنْ دُوْنِ : علاوہ (چھوڑ کر) الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے ذٰلِكَ : ایسا فَلَيْسَ : تو نہیں مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ فِيْ شَيْءٍ : کوئی تعلق اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ تَتَّقُوْا : بچاؤ کرو مِنْھُمْ : ان سے تُقٰىةً : بچاؤ وَيُحَذِّرُكُمُ : اور ڈراتا ہے تمہیں اللّٰهُ : اللہ نَفْسَهٗ : اپنی ذات وَاِلَى : اور طرف اللّٰهِ : اللہ الْمَصِيْرُ : لوٹ جانا
مومنوں کو چاہئے کہ مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس سے خدا کا کچھ (عہد) نہیں ہاں اگر اس طریق سے تم ان (کے شر) سے بچاؤ کی صورت پیدا کرو تو مضائقہ نہیں اور خدا تم کو اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف (تم کو) لوٹ کر جانا ہے
28: لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُم تُقٰۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ ، وَ اِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ ۔ (مؤمن کافروں کو دوست نہ بنائیں، اہل ایمان کو چھوڑ کر جو ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ سے اس کا کچھ تعلق نہیں مگر یہ کہ (کافروں کی طرف سے تم کو کچھ شرکا اندیشہ ہو تو) تم ان سے بچنا اور اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس جانا ہے) موالات کفار کی ممانعت : لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مسلمانوں کو قرابت کی بناء پر کفار کے ساتھ گہری دوستی سے روکا گیا۔ یا اسلام سے قبل پائی جانے والی دوستی کی بنیاد پر ہو یا کسی بناء پر اور قرآن مجید میں یہ بات بار بار دہرائی اور حبّ فی اللہ اور بغض فی اللہ ایمان میں ایک عظیم دروازہ اور موڑ ہے۔ مِنْ دُوْنِ الْمُوْ مِنِیْنَ ایمان والوں کی دوستی کفار سے نہ ہونی چاہیئے۔ پس کفار کو ایمان والوں پر ترجیح نہ دو ۔ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ یعنی جو کفار کی موالات اختیار کرے گا اس کو اللہ تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ دوست کی دوستی اور دشمن کی دوستی ایک دوسرے کے منافی ہیں۔ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُم تُقٰۃً (مگر یہ کہ ان کی طرف سے تمہیں ایسا معاملہ پیش آئے جس سے بچنا ضروری ہو۔ ) یعنی کافر کو مسلمان پر غلبہ حاصل ہو۔ اور مسلمان کو اس کی طرف سے اپنے مال و جان کو خطرہ ہو اس صورت میں ان سے موالات کرنا اور دشمنی نہ رکھنا جائز ہے۔ وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہ نَفْسَہٗ (اللہ تعالیٰ بظاہر تمہیں اپنی ذات سے ڈراتے ہیں) پس کفار کی موالات اختیار کر کے اپنے آپ کو غضب الٰہی کا نشانہ نہ بنائو۔ یہ سخت وعید ہے۔ وَ اِلَی اللّٰہِ الْمَصِیرُ (تم نے اس کی بارگاہ میں پہنچنا ہے) اور عذاب اس کے ہاں تیار ہے۔ یہ دوسری وعید ہے۔
Top