Madarik-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 36
فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ وَضَعْتُهَاۤ اُنْثٰى١ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ١ؕ وَ لَیْسَ الذَّكَرُ كَالْاُنْثٰى١ۚ وَ اِنِّیْ سَمَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَ اِنِّیْۤ اُعِیْذُهَا بِكَ وَ ذُرِّیَّتَهَا مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
فَلَمَّا : سو جب وَضَعَتْهَا : اس نے اس کو جنم دیا قَالَتْ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : میں نے وَضَعْتُهَآ : جنم دی اُنْثٰى : لڑکی وَاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : جو وَضَعَتْ : اس نے جنا وَلَيْسَ : اور نہیں الذَّكَرُ : بیٹا كَالْاُنْثٰى : مانند بیٹی وَاِنِّىْ : اور میں سَمَّيْتُهَا : اس کا نام رکھا مَرْيَمَ : مریم وَاِنِّىْٓ اُعِيْذُھَا : اور میں پناہ دیتی ہوں اس کو بِكَ : تیری وَذُرِّيَّتَهَا : اور اس کی اولاد سے مِنَ : سے الشَّيْطٰنِ : شیطان الرَّجِيْمِ : مردود
جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے اور (نذر کے لئے) لڑکا (موزوں تھا کہ وہ) لڑکی کی طرح (ناتواں) نہیں ہوتا اور میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے اور میں اس کو اور اسکی اولاد شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔
36: فَلَمَّا وَضَعَتْھَا قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ وَضَعْتُھَآ اُنْثٰی (پھر جب لڑکی جنی کہنے لگیں کہ اے میرے پروردگار میں نے تو وہ حمل لڑکی جنی) وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَ لَیْسَ الذَّکَرُ کَالْاُنْثٰی وَاِنِّیْ سَمَّیْتُھَا مَرْیَمَ وَاِنّیِْٓ اُعِیْذُ ھَا بِکَ وَ ذُرِّیَّتَھَا مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ فَلَمَّا وَضَعَتْھَا، ھا ضمیر مافی بطنی یعنی حمل کی طرف راجع ہے، مؤنث حاملہ یا نفس یا نسمہ کے اعتبار سے لائی گئی۔ قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ وَضَعْتُھَآ اُنْثٰی یہ وَضَعْتُھَاکی ضمیر سے حال ہے۔ یعنی حاملہ یا نفس یا نسمہ نے لڑکی جنی۔ حنہّ نے یہ بات بطور معذرت کہی کیونکہ لڑکیوں کی نذر کا رواج نہ تھا۔ اس نے غمزدہ ہو کر حسرت و رنج سے یہ بات کہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا : حسرت پر تسلی : واللّٰہ اعلم بما وضعت (اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے جو کچھ اس نے جنا) اس کلام سے پیدا شدہ بچی کی عظمت ظاہر کرنا مقصود ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے جو بچی اس نے جنی ہے۔ اور جو عظیم معاملات اس سے متعلق ہیں۔ قراءت : وَضَعْتُ شامی اور ابوبکر نے اس طرح پڑھا۔ کہ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں جو میں نے بچی جنی ہے شاید اس کی اس میں کوئی حکمت اور کوئی راز ہے۔ اس قراءت کے مطابق یہ سابقہ قول حنہ سے متعلق ہوگا اور پہلی قراءت کے مطابق اُنثٰی پر وقف کیا جائے گا۔ اور واللّٰہ اعلم یہ جملہ ابتدا ئیہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیشینگوئی ہے۔ لَیْسَ الذَّکَرُ : (نہیں ہے وہ مذکر) جو تم نے طلب کیا، کَالْاُنْثٰی (اس عورت کی طرح) جو اس کو دی گئی ان دونوں میں الف لام عہد کا ہے۔ وَاِنِّیْ سَمَّیْتُھَا مَرْیَمَ (اور میں نے اس لڑکی کا نام مریم رکھا) اس کا عطف انی وضعتھا انثٰی پر ہے۔ درمیان میں دونوں جملے معترضہ ہیں۔ حنہ نے اس کا نام مریم رکھا۔ کیونکہ انکی زبان میں مریم عابدہ کو کہتے تھے۔ یہ نام رکھ کر اللہ تعالیٰ کے ہاں تقرب کا ارادہ کیا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے یہ مانگا کہ وہ اس کی حفاظت فرما کر اسم بامسمّٰی بنا دے۔ اور اسکے متعلق اس کا گمان سچا کر دے۔ کیا تم غور نہیں کرتے کہ اس نے اس کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ کی پناہ شیطان سے اسکے لئے اور اسکے لڑکے کیلئے ان الفاظ سے طلب کی اِنِّیْٓ اُعِیْذُھَا بِکَ وَذُرِّیَّتَھَا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ (کہ میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان ملعون سے تیری پناہ میں دیتی ہوں) حدیث میں وارد ہے کہ جو بچہ پیدا ہوتا ہے ولادت کے وقت شیطان اس کو چوک لگاتا ہے۔ جس سے وہ چیختا ہے۔ سوائے مریم اور اسکے بیٹے کے۔ (بخاری، مسلم، احمد) قراءت : مدنی نے اِنِّیْ کو اِنِّیَ پڑھا ہے۔
Top