بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Madarik-ut-Tanzil - Al-Ahzaab : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی ! اتَّقِ اللّٰهَ : آپ اللہ سے ڈرتے رہیں وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافروں وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ : اور منافقوں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اے پیغمبر خدا سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا بیشک خدا جاننے والا اور حکمت والا ہے
1: یٰٓـاَیـُّھَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰہَ وَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ (اے نبی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور کافروں) وَالْمُنٰفِقِیْن اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا (اور منافقوں کا کہنا نہ مانیے بیشک اللہ تعالیٰ بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہے) ۔ قول ابی بن کعب ؓ کا مطلب : حضرت ابی نے زر کو کہا سورة احزاب کی آیات تمہارے شمار میں کتنی ہیں انہوں نے جواب میں کہا۔ 73 آیات حضرت کعب نے کہا اس ذات کی قسم جس کے نام کی قسم ابی اٹھاتا ہے یہ سورة بقرہ کے برابر تھی یا اس سے بھی زیادہ لمبی ہم نے اس میں آیت رجم پڑھی۔ الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموھما البتۃ نکالا من اللہ واللّٰہ عزیز حکیم۔ حضرت ابی کی مراد یہ ہے کہ یہ سورت من جملہ قرآن کے اس حصہ میں سے جو منسوخ ہوا۔ نشاندہی : باقی وہ جو حکایت بیان کی جاتی ہے کہ یہ اضافہ ایک صحیفہ میں تھا جو عائشہ ؓ کے گھر میں پڑا تھا اس کو بکری نے کھالیا یہ حکایت ملحدین اور رافضیوں کی تصنیفات سے ہے۔ یٰٓـاَیـُّھَا النَّبِیُّ اے ہماری طرف سے خبر دینے والے، ہمارے اسرار کے امین ‘ ہمارے خطابات ہمارے بندوں تک پہنچانے والے۔ قراءت : نافع نے لنبیٔ ہمزہ کے ساتھ پڑھا ہے یہاں انداز خطاب لقب سے ہے نام سے نہیں جیسا کہ دیگر انبیاء (علیہم السلام) کو یا آدم، یا موسیٰ کہا گیا۔ آپ کی تشریف اور فضیلت کو ظاہر فرمانے کے لئے کیا گیا ہے البتہ دوسری آیت محمد رسول اللہ ﷺ ] الفتح : 29[ اور بعض دیگر آیات میں نام کی تصریح یہ تعلیم دینے کیلئے ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہے۔ کفار اور منافقین کی باتیں نہ مانیں : اتَّقِ اللّٰہَ (اللہ تعالیٰ سے ڈرو ! ) تقوی پر ثابت قدم رہو اور ہمیشگی اختیار کرو اور اس میں اضافہ کرو کیونکہ یہ ایسا باب ہے جس کی انتہاء کو پایا نہیں جاسکتا۔ وَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ (کسی بھی چیز میں کفار و منافقین کی مساعدت و مددنہ فرمائیں) اور ان سے بچتے رہو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ اور مؤمنوں کے دشمن ہیں۔ روایت تفسیریہ میں ہے کہ ابو سفیان، عکرمہ بن ابوجہل، ابو الاعور سلمی احد لڑائی کے بعد مدینہ آئے۔ اور عبد اللہ بن ابی کے ہاں مہمان رہے نبی اکرم ﷺ نے ان کو امان دیا کہ وہ آپ سے گفتگو کرسکیں۔ انہوں نے آپ سے کہا۔ ہمارے معبودوں کا تذکرہ چھوڑ دو ۔ اور کہو کہ وہ سفارشی ہیں اور نفع و نقصان دے سکتے ہیں۔ منافقین نے ان کی اس بات میں مدد کی مسلمانوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا تو یہ آیت اتری۔ اتق اللہ فی نقض العھد ولا تطع الکافرین من اھل مکۃ والمنافقین من اہل المدینۃ فیما طلبوا۔ وعدہ خلافی میں اللہ تعالیٰ کا لحاظ رکھو اور کفار مکہ کا اور منافقین مدینہ کی بات نہ مانیں جو کچھ انہوں نے کہی ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا (بیشک اللہ تعالیٰ جاننے والے ہیں) ان کے اعمال کی خیانت کو حَکِیْمًا اور ان کے ساتھ حکم قتال کی تاخیر میں حکمت والا ہے۔
Top