Madarik-ut-Tanzil - Al-Ahzaab : 43
هُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْكُمْ وَ مَلٰٓئِكَتُهٗ لِیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ؕ وَ كَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا
هُوَ الَّذِيْ : وہی جو يُصَلِّيْ : رحمت بھیجتا ہے عَلَيْكُمْ : تم پر وَمَلٰٓئِكَتُهٗ : اور اس کے فرشتے لِيُخْرِجَكُمْ : تاکہ وہ تمہیں نکالے مِّنَ : سے الظُّلُمٰتِ : اندھیروں اِلَى النُّوْرِ ۭ : نور کی طرف وَكَانَ : اور ہے بِالْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر رَحِيْمًا : مہربان
وہی تو ہے جو تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اسکے فرشتے بھی تاکہ تم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائے اور خدا مومنوں پر مہربان ہے
صلوٰۃ کا مطلب : 43: ھُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عََلَیْکُمْ وَمَلٰٓپکَتُہٗ (وہ وہی ذات ہے جو کہ تم پر رحمتیں بھیجتی ہے اور اس کے فرشتے) مصلی کی جب یہ حالت ہے کہ وہ اپنے رکوع اور سجدہ میں متوجہ ہوا ہے۔ تو دوسرے پر شفقت و نرمی کے ساتھ متوجہ ہونے والے کیلئے بطور استعارہ استعمال ہونے لگا۔ جیسا کہ مریض کی عیادت کرنے والا مریض پر شفقت میں اور عورت اپنے بیٹے پر شفقت کرتی ہے پھر اس کا استعمال کثرت سے رحمت و مہربانی میں ہونے لگا اور اسی معنی میں عرب کا یہ قول ہے : صلی اللہ علیک یعنی تم پر رحم فرمائے اور مہربانی فرمائے۔ صلاۃِؔ ملائکہ : سے مراد ملائکہ کا یہ قول ہے : اللھم صل علی المؤمنین کیونکہ وہ مستجاب الدعوات ہیں اس لئے ان کو اس طرح قرار دیا گیا گویا کہ وہ رحمت و مہربانی کرنے والے ہیں مطلب یہ ہے وہی ذات ہے جو تم پر رحم فرماتا اور مہربانی کرتا ہے اس طرح کہ وہ تمہیں خیر کی طرف بلاتا ہے اور تمہیں کثرت ِذکرکا حکم دیتا ہے۔ اور وافر مقدار میں صلاۃ وطاعت کا حکم دیتا ہے۔ لِیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ (تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالے) معصیت کے اندھیروں سے نور اطاعت کی طرف وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا (اور وہ مؤمنوں پر زیادہ مہربان ہے) ۔ : آیت کا یہ حصہ دلیل ہے کہ صلاۃ سے مراد رحمت ہے روایت میں ہے کہ جب آیت : ان اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی ] الاحزاب : 56[ نازل ہوئی تو ابوبکر ؓ نے کہا یارسول اللہ اللہ تعالیٰ نے جس شرف کے ساتھ بھی آپ کو خاص کیا تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں حصہ دار اور شریک ضرور بنایا ہے پس یہ آیت نازل ہوئی۔
Top