Madarik-ut-Tanzil - Al-Ahzaab : 49
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَیْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا١ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَ سَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والو اِذَا : جب نَكَحْتُمُ : تم نکاح کرو الْمُؤْمِنٰتِ : مومن عورتوں ثُمَّ : پھر طَلَّقْتُمُوْهُنَّ : تم انہیں طلاق دو مِنْ قَبْلِ : پہلے اَنْ : کہ تَمَسُّوْهُنَّ : تم انہیں ہاتھ لگاؤ فَمَا لَكُمْ : تو نہیں تمہارے لیے عَلَيْهِنَّ : ان پر مِنْ عِدَّةٍ : کوئی عدت تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ : کہ پوری کراؤ تم اس سے فَمَتِّعُوْهُنَّ : پس تم انہیں کچھ متاع دو وَسَرِّحُوْهُنَّ : اور انہیں رخصت کردو سَرَاحًا : رخصت جَمِيْلًا : اچھی طرح
مومنو ! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے ان کو ہاتھ لگانے (یعنی ان کے پاس جانے) سے پہلے طلاق دے دو تو تم کو کچھ اختیار نہیں کہ ان سے عدت پوری کراؤ ان کو کچھ فائدہ (یعنی خرچ) دے کر اچھی طرح سے رخصت کردو
وجوبِ عدت : 49: یٰٓـاَیـُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا اِذَا نَـکَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ (اے ایمان والو ! جب تم مومنہ عورتوں سے نکاح کرو) یعنی جب تم شادی کرو۔ نکاحؔ کا لفظ اصل میں وطی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور عقد کو بھی نکاح اس لئے کہتے ہیں کیونکہ وطی تک پہنچنے کا ذریعہ اور واسطہ ہے جیسا کہ شراب کو اثم کہتے ہیں کیونکہ وہ شراب اس گناہ کا سبب ہے جیسا کہ راجز کے اس قول میں : اسنمۃ الا بال فی سحابہٖ شاعر نے پانی کا نام اسنمۃ الا بال رکھا کیونکہ وہ اونٹوں کے موٹا ہونے کا سبب اور ان کی سناموں کی بلندی کا سبب ہے۔ النکاحؔ : نکاح کا لفظ قرآن مجید میں عقد کے معنی میں ہی وارد ہوا ہے۔ کیونکہ وطی کے معنی میں تو یہ باب تصریح میں سے ہوجائے گا۔ حالانکہ آداب قرآن کا تقاضا اس کا (یعنی وجیء) کنایہ، الملامسۃ، المماسۃ، القربان، التغشی اور الاتیان ہے۔ وجہ تخصیص : مؤمنات کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ اشارہ کردیا کہ مومن کو مومنہ سے نکاح کرنا چاہیے۔ اگرچہ کتابیات جو از نکاح میں مؤمنات کے برابر ہیں۔ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ (پھر تم ان کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو ) اور خلوت صحیحہ مس کی طرح ہے۔ فَمَا لَکُمْ عَلَیْھِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّوْنَھَا (تو تمہاری ان کے اوپر کوئی عدت نہیں جس کو تم شمار کرنے لگو) مسئلہ : اس میں دلیل ہے کہ عورتوں پر مردوں کیلئے عدت واجب ہے اور تعتدونھا کا معنی اس کی گنتی کو پورا کرنے والے ہو۔ صرف : یہ عدّ سے باب افتعال ہیفَمَتِّعُوْھُنَّ (پس ان کو کچھ متاع دیدو) ۔ متعہ : اس عورت کے لئے لازم ہے جس کو دخول سے پہلے طلاق دے دی گئی ہو اور اس کا مہر بھی مقرر نہ ہو ‘ دوسری عورتوں کے لئے نہیں۔ وَسَرِّ حُوْ ھُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا (اور ان کو خوبی کے ساتھ رخصت کردو) ۔ یعنی ان کو تکلیف دینے کیلئے نہ روکو۔ اور ان کو اپنے گھروں سے فارغ کردو۔ کیونکہ تمہاری طرف سے ان پر کچھ بھی عدت نہیں ہے۔
Top