Madarik-ut-Tanzil - Faatir : 24
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا١ؕ وَ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِیْهَا نَذِیْرٌ
اِنَّآ : بیشک ہم اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے آپ کو بھیجا بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ بَشِيْرًا : خوشخبردی دینے والا وَّنَذِيْرًا ۭ : اور ڈر سنانے والا وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ اُمَّةٍ : کوئی امت اِلَّا خَلَا : مگر گزرا فِيْهَا : اس میں نَذِيْرٌ : کوئی ڈرانے والا
ہم نے تم کو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور کوئی امت نہیں مگر اس میں ہدایت کرنے والا گزر چکا ہے
24: اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ (ہم ہی نے آپ کو حق دے کر بھیجا) بالحق : یہ دونوں میں سے ایک سے حال ہے۔ ای محقا یا محقین۔ نمبر 2۔ مصدر کی صفت ہے ای ارسالا مصحوبا بالحق۔ ایسا بھیجنا جو حق سے ملا ہوا ہے۔ بَشِیْرًا (خوشخبری سنانے والے ہیں) وعدوں کے ساتھ وَّ نَذِیْرًا ( اور ڈر سنانے والے ہیں) وعید کے ذریعہ وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ (اور کوئی امت ایسی نہیں) جو امت بھی آپ کی امت سے پہلے ہوئی۔ الامہؔ کثیر جماعت کو کہتے ہیں۔ جیسا اس ارشاد میں ہے وجد علیہ امۃ من الناس ] القصص : 23[ امت ہر زمانہ والوں کو کہا جاتا ہے یہاں اہل زمانہ ہی مراد ہیں۔ انذار کے آثار حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور محمد ﷺ کے درمیان موجود تھے۔ وہ زمانے کسی نذیر سے خالی نہیں رہے۔ جب عیسیٰ (علیہ السلام) کے انذار کے اثرات مٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو بھیجا۔ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ (مگر کہ ان میں ایک ڈرانے والا گزرا) خلاؔ گزرنے کے معنی میں ہے ڈرانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو سرکشی کی بدمزگی اور ناشکری کے بدترین انجام سے ڈرائیں۔ نکتہ : آیت کے شروع میں بشیر و نذیر دونوں کا ذکر کیا مگر انتہاء پر نذیر کے ذکر پر اکتفا کیا کیونکہ نذارت و بشارت اضداد ہیں ایک کا تذکرہ دوسرے کے تذکرہ پر دلالت کرتا ہے۔
Top