Madarik-ut-Tanzil - Yaseen : 35
لِیَاْكُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖ١ۙ وَ مَا عَمِلَتْهُ اَیْدِیْهِمْ١ؕ اَفَلَا یَشْكُرُوْنَ
لِيَاْكُلُوْا : تاکہ وہ کھائیں مِنْ ثَمَرِهٖ ۙ : اس کے پھلوں سے وَمَا : اور نہیں عَمِلَتْهُ : بنایا اسے اَيْدِيْهِمْ ۭ : ان کے ہاتھوں اَفَلَا يَشْكُرُوْنَ : تو کیا وہ شکر نہ کریں گے
تاکہ یہ ان کے پھل کھائیں اور ان کے ہاتھوں نے تو ان کو نہیں بنایا پھر یہ شکر کیوں نہیں کرتے ؟
35: لِیَاْ کُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖ (تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا پھل کھائیں) ثمرہٖ کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہے۔ ای لیاکلوا مما خلقہ اللہ من الثمر۔ قراءت : من ثُمُرہٖ حمزہ، علی نے پڑھا ہے۔ وَمَا عَمِلَتْہُ اَیْدِیْھِمْ (اور اس میں سے جس کو ان کے ہاتھوں نے لگایا) یعنی اور اس میں سے جو ان کے ہاتھوں نے بونا، سیراب کرنا پیوند کرنا وغیرہ اعمال کیے یہاں تک کہ پھل اپنی میعاد کو پہنچا۔ مطلب یہ ہے کہ پھل فی نفسہٖ اللہ تعالیٰ نے بنایا اور پیدا کیا اس میں بنی آدم کی محنت کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ اس کی اصل من ؔ ثمرنا ہے جیسا پچھلی آیت میں جعلنا، فجرنا کے صیغے دلالت کرتے ہیں۔ پھر بطریق التفات متکلم سے کلام کو غیبت کی طرف پھیر دیا گیا۔ نمبر 2۔ اور یہ بھی درست ہے کہ ضمیر کا مرجع النخیل ہو اور اعناب کی طرف بلا ضمیر لوٹائے چھوڑ دیں لیکن یہ تو معلوم ہے کہ اس کا نخیل والا حکم ہے کیونکہ اکل ثمرہٖؔ کی وجہ سے یہ اس سے معلق ہے۔ نمبر 3۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ مراد ثمر مذکور ہو۔ اور وہ جنات ہیں۔ جیسا کہ رؤبہ شاعر کا قول ہے۔ فیھا خطوط من بیاض و بُلَق۔ کانہٗ فی الجلد تولیع البھق اس سے سوال کیا گیا تو اس نے کہا میری مراد کانَّ ذلک ہے۔ حفص کے علاوہ کوفی قراء نے مَا عَمِلَتْ پڑھا اور اہل کوفہ کے تمام مصاحف میں اسی طرح ہے اور مصاحف اہل حرمین اور بصرہ، شام میں ضمیر کے ساتھ ما عَمِلَتْہٗ ہے۔ ایک قول یہ ہے ماؔ نافیہ ہے اس طرح کہ پھل کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور لوگوں کے ہاتھوں نے اس کو نہیں بنایا اور نہ ہی لوگوں کو اس پر قدرت حاصل ہے۔ اَفَلاَ یَشْکُرُوْنَ (پھر وہ شکر کیوں ادا نہیں کرتے) سستی کرتے ہوئے اس میں شکر ادا کرنے پر آمادہ کیا گیا۔
Top