Madarik-ut-Tanzil - Az-Zumar : 18
الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗ١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَ اُولٰٓئِكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ
الَّذِيْنَ : وہ جو يَسْتَمِعُوْنَ : سنتے ہیں الْقَوْلَ : بات فَيَتَّبِعُوْنَ : پھر پیروی کرتے ہیں اَحْسَنَهٗ ۭ : اس کی اچھی باتیں اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جنہیں هَدٰىهُمُ اللّٰهُ : انہیں ہدایت دی اللہ نے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ هُمْ : وہ اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے ہدایت دی اور یہی عقل والے ہیں
اعمالِ دین کو نقد و تبصرہ کی نگاہ سے دیکھ کر احسن کو لینے والے ہیں : 18: الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗ (جو اس کلام کو کان لگا کر سنتے ہیں اور پھر اس کی اچھی اچھی باتوں پر چلتے ہیں) یہ وہی لوگ ہیں جو پرہیز گار اور منیب ہیں مقصود یہ ہے کہ پرہیزگاری اور انابت کے ساتھ ساتھ وہ اس صفت سے بھی متصف ہوں۔ یہاں ظاہر کو ضمیر کی جگہ لایا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ وہ دین کے اعمال کو نقد و تبصرہ کی نگاہ سے دیکھنے والے اور اس میں سے حسن واحسن اور فاضل و افضل کا فرق کرنے والے ہوں۔ جب ان کے سامنے دو معاملے پیش آئیں۔ ان میں سے ایک واجب اور دوسرا مستحب ہو تو وہ واجب کو اختیار کرنے والے ہوں۔ اسی طرح مباح وندب میں تقابل کے وقت ندب کو اختیار کرنے والے ہیں۔ گویا اس بات کی ان کو حرص لگی ہو کہ بارگاہ الٰہی میں کونسا امر قریب تر ہے۔ اور کس کا ثواب بڑھا ہوا ہے۔ نمبر 2۔ وہ قرآن اور غیر قرآن کو سنکر پھر قرآن کی اتباع کرتے ہیں۔ یا اللہ تعالیٰ کے اوامر کو سن کر پھر ان میں سے احسن کی پیروی کرنے والے ہوں مثلاً قصاص اور عفو میں سے عفو اختیار کرنے والے ہیں۔ نمبر 4۔ لوگوں کے ساتھ باتیں سنتے ہیں جن میں اچھائیاں اور برائیاں ہوتی ہیں۔ وہ اچھی باتوں کو آگے لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں اور ان کے علاوہ سے بچتے ہیں۔ اُولٰٓپکَ الَّذِیْنَ ھَدٰھُمُ اللّٰہُ وَاُولٰٓپکَ ھُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ (یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور یہی ہیں جو اہل عقل وخرد ہیں) یعنی اپنی عقول سے نفع اٹھانے والے ہیں۔
Top