Madarik-ut-Tanzil - Az-Zumar : 19
اَفَمَنْ حَقَّ عَلَیْهِ كَلِمَةُ الْعَذَابِ١ؕ اَفَاَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِی النَّارِۚ
اَفَمَنْ : کیا۔ تو۔ جو ۔ جس حَقَّ : ثابت ہوگیا عَلَيْهِ : اس پر كَلِمَةُ : حکم۔ وعید الْعَذَابِ ۭ : عذاب اَفَاَنْتَ : کیا پس۔ تم تُنْقِذُ : بچا لو گے مَنْ : جو فِي النَّارِ : آگ میں
بھلا جس شخص پر عذاب کا حکم صادر ہوچکا تو کیا تم (ایسے) دوزخی کو مخلصی دے سکو گے ؟
19: اَفَمَنْ حَقَّ عَلَیْہِ کَلِمَۃُ الْعَذَابِ اَفَاَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِی النَّارِ (بھلا جس شخص پر عذاب کی بات ثابت ہوچکی۔ تو کیا آپ ایسے شخص کو جو کہ دوزخ میں ہے چھڑا سکتے ہیں) اصل کلام اس طرح ہے امن حق علیہ کلمۃ العذاب فانت تنقذہ حق بمعنی وجب ہے۔ نحو : یہ جملہ شرطیہ ہے جس پر ہمزہ استفہام انکاری داخل ہوا اور فاءؔ جزائیہ ہے۔ پھر اس پر وہ فاءؔ داخل ہوئی جو اس کی ابتداء میں محذوف پر عطف کیلئے لائی گئی۔ تقدیر کلام اس طرح ہے۔ ئَ اَنَتَ مالک امرھم ؟ فمن حق علیہ العذاب فانت تنقذہ ؟ ہمزہ ثانیہ وہی پہلاہی ہمزہ ہے جو انکار کے معنی کی تاکید کیلئے دوبارہ لایا گیا۔ اور من فی النارؔ کو مضمر کی جگہ لائے ای تنقذہٗ حاصل یہ ہوا کہ اس کے مطابق آیت ایک ہی جملہ ہے۔ نمبر 2۔ اسکا معنی یہ ہوا افمن حق علیہ کلمۃ العذاب ینجو منہ فانت تنقذہٗ ؟ مطلب یہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے گمراہ کردیا اس کو آگ سے بچانے کی کوئی قدرت نہیں رکھتا اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات سبقت کرچکی کہ وہ اہل نار میں سے ہے۔
Top